آئی ایم ایف کے مطالبے پر فروری میں 200 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کا منصوبہ

شہباز رانا  منگل 17 جنوری 2023
آئی ایم ایف پروگرام بحالی کیلیے نئے اقدامات آرڈیننس سے نافذ کیے جانے کا امکان۔  فوٹو: فائل

آئی ایم ایف پروگرام بحالی کیلیے نئے اقدامات آرڈیننس سے نافذ کیے جانے کا امکان۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل توڑنے کیلئے فروری میں لگ بھگ 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا سکتی ہے لیکن سیاسی غیر یقینی صورتحال حتمی فیصلوں میں تاخیر کر رہی ہے۔

عالمی ادارے نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی سے دسمبر) کے آخر تک سامنے آنے والے 220 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے اقدامات کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجلی کے نرخوں میں اضافے پر بات چیت سمیت نئی بجٹ تجاویز پر مشاورت شروع کر دی ہے۔انھوں نے دبئی سے واپسی کے بعد لاہور میں ملاقاتیں کیں،جہاں ریاستی اثاثے متحدہ عرب امارات کو فروخت کرنے پر پیش رفت نہ ہو سکی۔اس سے قبل حکومت کا منصوبہ سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے قریباً 80 ارب روپے حاصل کرنے کیلئے صرف درآمدات اور کمرشل بینکوں پر ٹیکس عائد کرنا تھا۔

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے فہرست کو مزید وسعت دی گئی ہے اور اب درآمدی اور مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیوں، مشروبات اور پٹرولیم مصنوعات پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ کیا جانا ہے۔

مسلم لیگ ن کی بڑھتی غیرمقبولیت کے ساتھ سیاسی غیر یقینی صورتحال نئے اقدامات کرنے میں حکومتی ہچکچاہٹ کی وجہ ہے۔ روپیہ اور ڈالر کی برابری 228.35 روپے ہے لیکن حوالہ مارکیٹ میں یہ 270 روپے سے زیادہ ہے پاکستان یہ ریٹ بھی مارکیٹ کے مطابق رکھنے کی اجازت دیگا۔

ذرائع نے بتایا اس سے قبل منصوبہ جنوری سے درآمدات پر کم از کم 1 سے 3 فیصد فلڈ لیوی اور بینکوں کی زرمبادلہ سے متعلق آمدن پر 41 فیصد اضافی انکم ٹیکس عائد کرنے کا تھا۔اب حکومت فروری کے پہلے ہفتے سے اس کا نفاذ کرگی۔ یہ واضح نہیں حکومت ایک صدارتی آرڈیننس لائے گی یا دو؟ فلڈ لیوی کو منی بل نہیں سمجھا جائے گا، جب تک کہ سپیکر قومی اسمبلی اس کا اعلان نہ کریں۔

فیڈرل ایکسائز ایکٹ، انکم ٹیکس آرڈیننس میں تبدیلیوں اور سیلز ٹیکس ایکٹ کے چھٹے شیڈول میں ترامیم کیلئے آرڈیننس کے ذریعے منی بل لانے کی ضرورت ہوگی۔تاہم سینٹ اجلاس جاری ہے جسے ملتوی کرنا پڑے گا تا کہ آرڈی ننس جاری کیا جا سکے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پیر کے روز کچھ فیلڈ فارمیشنز کے سربراہوں کو بھی تبدیل کر دیا، جس میں چیف کمشنر میڈیم ٹیکس پیئرز آفس کراچی آفتاب امام، کو ناقص کارکردگی پر ہٹانا بھی شامل ہے۔ انہیں نئی ذمہ داری نہیں دی گئی ، ان کی جگہ یوسف حیدر شیخ کو چیف کمشنر بنایا گیا ہے۔

تین برس قبل ایف بی آر نے بھی طے شدہ طریقہ کار پر عمل کئے بغیر 36 ماہ کی تنخواہ انعام میں دینے کے غیر قانونی اقدام کی وجہ سے امام کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

بطور چیف کمشنر انہوں نے پسندیدہ ملازمین کو 21.2 ملین روپے تقسیم کئے لیکن ایف بی آر نے اس معاملے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔ ایف بی آر نے خورشید مروت کو ریجنل ٹیکس آفس سرگودہاکا چیف کمشنر تعینات کیاہے۔

ریونیو میں شدید کمی کے باعث وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا حکومت ایف بی آر کے سالانہ 7470 ارب روپے کے ٹیکس ہدف پر قائم رہے گی جوکم از کم 200 ارب روپے کے اضافی ریونیو اقدامات کے بغیر ممکن نہیں۔

ذرائع نے بتایا آئی ایم ایف نے 420 ارب روپے کے شارٹ فال کا اندازہ لگایا ہے لیکن ایف بی آر نے دعویٰ کیا ہے اسے 170 ارب سے 180 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ذرائع کے مطابق حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس دوبارہ لاگو کرنے یا لیوی کی موجودہ زیادہ سے زیادہ حد 50 روپے فی لٹر سے بڑھانے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔کیونکہ لیوی کی وصولی 855 ارب روپے کے سالانہ ہدف سے کم رہے گی،اس لیے حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے لیوی بڑھانے کیلئے دباؤ کا سامنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔