'معذوری نہیں… غربت تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہے'

نصیر احمد چغتائی  اتوار 6 اپريل 2014
سافٹ ویئرانجینئر بنوں گا: بازوؤں سے محرومی کے باعث پائوں سے خوش خط لکھنے والے جمشید سلیم کی گفتگو۔ فوٹو: فائل

سافٹ ویئرانجینئر بنوں گا: بازوؤں سے محرومی کے باعث پائوں سے خوش خط لکھنے والے جمشید سلیم کی گفتگو۔ فوٹو: فائل

معاشرتی حالات، خاندانی مجبوریاں، غربت و افلاس نوجوان نسل کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔

پھر وڈیرہ شاہی اور وہی 25 سے 30 خاندان، جو قیام پاکستان سے اب تک نسل در نسل اقتدار کے ایوانوں اور ہر شعبہ میں اعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں، نہیں چاہتے کہ غریب خاندانوں کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر ان کے مدمقابل کھڑے ہو سکیں۔ کیا وقت کے حکمرانوں یا انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کے مالی تعاون سے کسی غریب کا قابل سپوت اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مستقبل میں ملکی ترقی کے لیے معمار ثابت ہو سکے؟۔ متعدد فلاحی ادارے اور این جی اوز صرف نمبر کی دوڑ میں اربوں روپے بے مقصد کاموں کی نذر کرکے اپنے آپ کو قابل فخر سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر بے شمار ایسے قابل بچے اور بچیاں موجود ہیں جو صرف اور صرف پیسے نہ ہونے اور خاندانی غربت کے باعث اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔

ملک بھر میں غربت اور افلاس کی وجہ سے لاکھوں باصلاحیت بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی حسرت دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں صرف غربت ہی نہیں بلکہ قدرتی معذوری اور معاشرتی بے حسی بھی تعلیم کے حصول میں مانع ہوتی ہے، مگر کچھ بچے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اپنی قوت ارادی سے تعلیم کے میدان میں وہ شاندار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں جو بعض اوقات نارمل بچوں سے بھی نہیں ہوتا۔ ایسا ہی ایک نوجوان جمشید سلیم ہے جو جنڈیالہ شیر خان روڈ پر واقع آبادی محلہ قادر آبادکا رہائشی ہے۔ یہ نوجوان پیدائشی طورپر دونوں بازوئوں سے محروم ہے۔ جب محمد جمشید نے غربت کے مارے خاندان میں 16 سال قبل آنکھ کھولی تو اس کی بے حس ماں نے اپنے لخت جگر کو پالنے سے انکار کر دیا۔ اس کی خالہ نے جمشید کو اپنی گود میں لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی اور جمشید کو ماں کا پیار دینے کا وعدہ کرکے اپنے سینے سے لگا لیا۔

جمشید سلیم نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بچپن سے اس کے دل میں تڑپ تھی کہ وہ دونوں بازوئوں کی محرومی کے باوجود غربت سے جنگ لڑتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔ میں پرائمری کے بعد اپنے پائوں کے ساتھ خوبصورت لکھائی کرکے نمایاں پوزیشن میں مڈل کا امتحان پاس کیا اور امسال نویں جماعت کا امتحان ایک نجی اعلیٰ سکول کی طرف سے دے رہا ہوں۔ میں کمپیوٹر چلانے کی مکمل مہارت رکھتا ہوں لیکن یہ الگ بات ہے کہ غربت کے باعث اپنا ذاتی کمپیوٹر بھی نہیں خرید سکتا۔

سافٹ ویئر انجینئر بننا چاہتا ہوں مگر میرے والد پر چھ بہنوں اور تین بھائیوں کی کفالت کا بوجھ ہے۔ اگر خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف یا کوئی دردِ دل رکھنے والا مخیر شخص میرے تعلیمی اخراجات برداشت کر سکے تو میرا ہدف سافٹ ویئر انجینئر بننا ہے۔ چوں کہ اسلام میں گداگری حرام ہے، اس لئے میں نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور نہ ہی کبھی ایسا خیال میرے دل میں آیا ہے۔ میں اپنے دونوں پائوں کے ساتھ تعلیم کے حصول کی جنگ لڑ رہا ہوں، جو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر لیتا‘‘۔

اپنی تعلیم کے حوالے سے فکر مند معذور جمشید سلیم نے مزید کہا کہ ’’ تعلیم کے حصول پر صرف دنیا دار ہی نہیں ہمارا مذہب بھی زور دیتا ہے، اسی لئے تعلیم کا حصول میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ میں تعلیم کے فروغ کے لئے دن رات کوشاں خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے جیسے معذور افراد پر خصوصی توجہ دیں۔ میرے اور دیگر معذور بچوں کے تعلیمی ارمانوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہمارے تعلیمی اخراجات کا بیڑا اٹھانے کا انتظام کریں کیوں کہ اس سے صرف لوگوں کی ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔