- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
آلودگی اور زندگی کو خطرات
تازہ ترین خبر کے مطابق زمین کا تحفظ کرنے والی اوزون کی تہہ کا شگاف بھر رہا ہے۔ امید ہے کہ کچھ دہائیوں میں متاثرہ شگاف بھر جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود اس تہہ کو زمین سے خطرناک گیسوں کے اخراج سے اب بھی خطرہ ہے۔
یہ بات سائنس دانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہی گئی ہے کہ گزشتہ صدی کے وسط میں اس حقیقت کا انکشاف ہوا تھا کہ خطرناک گیسز نے اوزون کی تہہ کو 11سے 40کلومیٹر تک متاثر کیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مضر اثرات اس صدی اور آنے والی کئی صدیوں کا بنیادی مسئلہ ہونگے۔ ماحولیات کا بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی خلامیں بھی پہنچ گئی ہے۔
ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق میتھین گیس کی مقدار تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے اسی طرح تاریخ کا بلند ترین ماہانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج گزشتہ سال اپریل مئی میں ہوا۔ جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں نہ صرف تباہ کن گرمی پڑی بلکہ یہ وقت سے بھی پہلے مارچ میں ہی شروع ہو گئی۔
ایک امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جو گزشتہ سال کے وسط میں شایع ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مجموعی مقدار زمین پر صنعتی ترقی کے مقابلے میں 50فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ بہت بڑی مقدار ہے یعنی یہ بغیر ضرورت کے بلاوجہ ہی ہم اس زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کر رہے ہیں۔ اس میں بلا ضرورت سیر سپاٹے ہوائی اور بحری سفر شامل ہیں۔
اس کی ایک بہت بڑی وجہ دنیا میں پاکستان جیسے پس ماندہ ملکوں کے عوام کی غیر ذمے داری لاپرواہی بھی شامل ہے کوئی بھی اپنے آپ پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا۔ سب اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسروں سے توقع رکھتے ہیں صرف لاہور شہر میں 60لاکھ وئیکلز اور کروڑ سے زائد موٹر بائیک ہیں۔ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر ایسے ہی نہیں ہے۔
سڑکوں پر چلنے والی ہر طرح کی وئیکلز بحری جہاز یا ہوائی جہاز یہ ہر وقت فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس چھوڑ رہے ہوتے ہیں اس کی مقدار ایک دن ایک مہینے ایک سال میں کتنی ہو سکتی ہے خود ہی آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہی دونوں گیسز ہی گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ ہیں۔ جس کے باعث زمین کا درجہ حرارت ہر سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
اس بڑھتی ہوئی آلودگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال نومبر میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آیندہ آنے والے 9سالوں میں زمین کا درجہ حرارت مزید 1.5سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا۔ جس کے باعث سمندروں کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا۔
اس سلسلہ میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق اگلے 30برسوں میں سمندروں کی سطح میں اضافہ گزشتہ100سالوں سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ سمندر کنارے تمام بڑے شہر زیر آب آ جائیں گے۔ آلودگی صرف سمندروںکے پانیوں میں ہی نہیں، وہ دریاؤں جھیلوں کے پانی کو بھی زہر آلود کر کے آبی حیات کا خاتمہ کر رہی ہے۔
مثال کے طور پر کاغذ کے بنے ہوئے چائے یا کافی کے کپ جو پلاسٹک کے کھربوں چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال کی ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق گزشتہ 20سالوں میں جنگلات دوگنی رفتار سے کم ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنگلات میں لگنے والی قدرتی آگ میں 2001تک 50فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے وجہ وہی گلوبل وارمنگ ہے۔ زمین اتنی حدت پکڑ لیتی ہے کہ جنگلات میں خود بخود آگ لگ جاتی ہے پاکستان سے لے کر پوری دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ایمزون کے جنگلات دنیا کے پھپھڑے ہیں جو پوری دنیا کو صاف آکسیجن مہیا کرتے ہیں وہاں بار بار اچانک آگ لگنے سے ان جنگلات کا ایک بڑا حصہ ضایع ہو گیا ہے انسان نے اپنی کرتوتوں کے باعث نہ صرف اس زمین پر اپنی بلکہ دوسرے بے زبان جانداروں کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں ایک سائنسی جریدے کے مطابق 2018میں تقریباً 50لاکھ افراد صرف آلودگی کے باعث موت کا شکار ہوئے۔
ایک اور سائنسی تحقیقی کے مطابق انسان کی پیدا کردہ آلودگی کے باعث ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے انسان سمیت تمام بڑے جانور خطرے سے دو چار ہو چکے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ زمین پر پائی جانے والی 30فیصد قدرتی حیات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دیکھا انسان کتنا نادان اور ظالم ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔