- خانیوال میں آئی ایس آئی افسران کو شہید کرنے والا دہشت گرد ہلاک
- پاسپورٹ کی فیس میں اضافے سے متعلق خبریں بے بنیاد قرار
- اردو زبان بولنے پر طالبعلم کے ساتھ بدسلوکی؛ اسکول کی رجسٹریشن معطل، جرمانہ عائد
- کراچی میں آئندہ 3 روز موسم خشک اور راتیں سرد رہنے کی پیشگوئی
- عمران خان کا بنی گالہ منتقل ہونے کا فیصلہ
- وزیراعظم اور آرمی چیف کی زخمیوں کی عیادت، شہباز شریف آئی جی پر برہم
- چوہدری شجاعت ق لیگ کے صدررہیں گے یا نہیں، فیصلہ کل سنایا جائیگا
- زرداری پر قتل کا الزام، شیخ رشید تھانے میں پیش نہ ہوئے، مقدمہ درج ہونے کا امکان
- اے سی سی اے مضمون میں پہلی پوزیشن؛ پاکستانی طالبعلم عالمی ایوارڈ کیلئے نامزد
- پوتن نے اپنی افواج کو مجھے میزائل حملے میں قتل کرنے کا حکم دیا تھا؛ بورس جانسن
- انٹربینک میں ڈالر 269 اور اوپن مارکیٹ میں 275 روپے تک پہنچ گیا
- بجلی اور حرارت کے بغیر مچھربھگانے والا نظام، فوجیوں کے لیے بھی مؤثر
- اے آئی پروگرام کا خود سے تیارکردہ پروٹین، مضر بیکٹیریا کو تباہ کرنے لگا!
- بھارتی کسان نے جامنی اور نارنجی رنگ کی گوبھیاں کاشت کرلیں
- جنوبی کوریا نے ’فائرنگ‘ پر شمالی کوریا سے معذرت کرلی
- عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود پاکستان میں سونے کی قیمت بڑھ گئی
- کرناٹک میں گائے ذبح کرنے کے الزام پر نوجوان پر انتہا پسند ہندوؤں کا تشدد
- پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اقتصادی جائزے پر منگل سے مذاکرات شروع ہوں گے
- فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جوڈیشل ریمانڈ منظور
- صرف غیر ملکی کوچز ہی کیوں! پاکستان میں بھی قابل لوگ موجود ہیں، شاہد آفریدی
آلودگی اور زندگی کو خطرات
www.facebook.com/shah Naqvi
تازہ ترین خبر کے مطابق زمین کا تحفظ کرنے والی اوزون کی تہہ کا شگاف بھر رہا ہے۔ امید ہے کہ کچھ دہائیوں میں متاثرہ شگاف بھر جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود اس تہہ کو زمین سے خطرناک گیسوں کے اخراج سے اب بھی خطرہ ہے۔
یہ بات سائنس دانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہی گئی ہے کہ گزشتہ صدی کے وسط میں اس حقیقت کا انکشاف ہوا تھا کہ خطرناک گیسز نے اوزون کی تہہ کو 11سے 40کلومیٹر تک متاثر کیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مضر اثرات اس صدی اور آنے والی کئی صدیوں کا بنیادی مسئلہ ہونگے۔ ماحولیات کا بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی خلامیں بھی پہنچ گئی ہے۔
ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق میتھین گیس کی مقدار تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے اسی طرح تاریخ کا بلند ترین ماہانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج گزشتہ سال اپریل مئی میں ہوا۔ جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں نہ صرف تباہ کن گرمی پڑی بلکہ یہ وقت سے بھی پہلے مارچ میں ہی شروع ہو گئی۔
ایک امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جو گزشتہ سال کے وسط میں شایع ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مجموعی مقدار زمین پر صنعتی ترقی کے مقابلے میں 50فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ بہت بڑی مقدار ہے یعنی یہ بغیر ضرورت کے بلاوجہ ہی ہم اس زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کر رہے ہیں۔ اس میں بلا ضرورت سیر سپاٹے ہوائی اور بحری سفر شامل ہیں۔
اس کی ایک بہت بڑی وجہ دنیا میں پاکستان جیسے پس ماندہ ملکوں کے عوام کی غیر ذمے داری لاپرواہی بھی شامل ہے کوئی بھی اپنے آپ پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا۔ سب اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسروں سے توقع رکھتے ہیں صرف لاہور شہر میں 60لاکھ وئیکلز اور کروڑ سے زائد موٹر بائیک ہیں۔ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر ایسے ہی نہیں ہے۔
سڑکوں پر چلنے والی ہر طرح کی وئیکلز بحری جہاز یا ہوائی جہاز یہ ہر وقت فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس چھوڑ رہے ہوتے ہیں اس کی مقدار ایک دن ایک مہینے ایک سال میں کتنی ہو سکتی ہے خود ہی آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہی دونوں گیسز ہی گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ ہیں۔ جس کے باعث زمین کا درجہ حرارت ہر سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
اس بڑھتی ہوئی آلودگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال نومبر میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آیندہ آنے والے 9سالوں میں زمین کا درجہ حرارت مزید 1.5سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا۔ جس کے باعث سمندروں کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا۔
اس سلسلہ میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق اگلے 30برسوں میں سمندروں کی سطح میں اضافہ گزشتہ100سالوں سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ سمندر کنارے تمام بڑے شہر زیر آب آ جائیں گے۔ آلودگی صرف سمندروںکے پانیوں میں ہی نہیں، وہ دریاؤں جھیلوں کے پانی کو بھی زہر آلود کر کے آبی حیات کا خاتمہ کر رہی ہے۔
مثال کے طور پر کاغذ کے بنے ہوئے چائے یا کافی کے کپ جو پلاسٹک کے کھربوں چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال کی ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق گزشتہ 20سالوں میں جنگلات دوگنی رفتار سے کم ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جنگلات میں لگنے والی قدرتی آگ میں 2001تک 50فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے وجہ وہی گلوبل وارمنگ ہے۔ زمین اتنی حدت پکڑ لیتی ہے کہ جنگلات میں خود بخود آگ لگ جاتی ہے پاکستان سے لے کر پوری دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ایمزون کے جنگلات دنیا کے پھپھڑے ہیں جو پوری دنیا کو صاف آکسیجن مہیا کرتے ہیں وہاں بار بار اچانک آگ لگنے سے ان جنگلات کا ایک بڑا حصہ ضایع ہو گیا ہے انسان نے اپنی کرتوتوں کے باعث نہ صرف اس زمین پر اپنی بلکہ دوسرے بے زبان جانداروں کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں ایک سائنسی جریدے کے مطابق 2018میں تقریباً 50لاکھ افراد صرف آلودگی کے باعث موت کا شکار ہوئے۔
ایک اور سائنسی تحقیقی کے مطابق انسان کی پیدا کردہ آلودگی کے باعث ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے انسان سمیت تمام بڑے جانور خطرے سے دو چار ہو چکے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ زمین پر پائی جانے والی 30فیصد قدرتی حیات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دیکھا انسان کتنا نادان اور ظالم ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔