جاوید کا لنگر خانہ (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 18 جنوری 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

جنوری کی نرم دھوپ انجمن ترقی اردو کی دوسری منزل پر ترچھی ہو کر بچھ رہی ہے۔ ایک روشن دن ، انجمن کے صدر جناب واجد جواد اپنے بھاری بھرکم وجود اور مسکراتے چہرے کے ساتھ راہداری میں ٹہل رہے ہیں۔

مدیر منتظم جناب عابد رضوی اپنی سیاہ شیروانی کے بٹن سے کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان دونوں کی کمال مہارت اور مستعدی ہے کہ انھوں نے گرانٹ کی خطیر رقم حاصل کی ہے اور اس کی عمارت کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے۔

اس کتاب خانے کی خوب تزئین و آرائش کی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا ہے، دوست خوشی سے سرشار ہوتے ہیں اور اس عمارت میں ملک سے باہر اور اندرون ملک سے آنے والے ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔

چند دنوں پہلے جب یہ خبر ملی کہ ہندوستان سے جاوید صدیقی صاحب تشریف لارہے ہیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ واجد صاحب، عابد صاحب اور مجھ سمیت دوسرے انجمن میں ان کی پذیرائی کے خواہشمند نہ ہوتے۔ وہ اپنی بیگم فریدہ کے ساتھ آئے اور انھوں نے محفل میں اپنی باتوں سے گل بوٹے کھلا دیے۔

جاوید صدیقی صاحب کی آمد کا جب میں نے سنا تو مجھے یقین نہیں آیا اور اب جب انھیں دیکھ رہی ہوں تو یقین نہیں آرہا کہ وہ اس دیس سے آرہے ہیں جہاں دلی کا لال قلعہ ہے ، آگرہ کا تاج محل ہے اور ممبئی ہے جو ایک انگریز دلہن کو منہ دکھائی میں ملا تھا ، وہ جنت نشان جس کے بارے میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ’’ کوسوں اس کی اُور گئے اور سجدہ ہر ہر گام کیا۔‘‘پھر ان کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ رام پور کے ہیں۔

اس سرزمین پر ان کا جنم ہوا جس پر میں نے قدم نہیں رکھا لیکن اس کے محلوں، بازاروں ، لائبریریوں اور وہاں کے دانشوروں کو یوں جانتی ہوں کہ جیسے ان سے سالہا سال کی ملاقات ہے اورکیوں نہ ہو کہ شاید آواگون اسی کو کہتے ہیں۔

جاوید صاحب کی تحریریں مختلف رسائل و جرائد میں پڑھیں اور اب عقیل عباس جعفری کی عنایت سے ان کی کتابیں ’’ روشن دان ‘‘ اور ’’ لنگر خانہ ‘‘ نظر نواز ہوئیں۔

ان کی تحریریں یکجا پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ ان خاکوں کے بارے میں خود جاوید صدیقی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ان میں اکثر وہ ہیں جنھیں دنیا نہیں جانتی ، مگر دنیا کی آنکھیں تو ہمیشہ سے کمزور ہیں ، اسے وہی دکھائی دیتے ہیں جن کے سروں پر اُجالے ہوتے ہیں۔

انجمن ترقی اردو کے صدر واجد جواد نے ان کا استقبال کیا۔ گرم جوشی سے سید عابد رضوی نے انھیں گلے لگایا۔ چند جملے میں نے بھی عرض کیے اور ان کی بیگم فریدہ کا استقبال کیا۔ اس کے بعد جاوید صدیقی نے اپنے خاکوں کے بارے میں بیان کیا۔ وہ کیا لکھتے ہیں اور کیسے سیدھے سبھاؤ ان کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔

ان خاکوں کو میں نے پڑھا ہے اور جی چاہتا ہے کہ آپ کو بھی سناتی جاؤں۔ گلزار ، جی ہاں دینہ کے گلزار۔ ان خاکوں کے بارے میں اس خوبی سے لکھ سکتے تھے کہ ہر ہر سطر کا صدقہ اتارتے جائیے۔

جاوید صاحب کے ڈرامے ، خاکے پڑھ کے میں اکثر کہہ اٹھتا ہوں: ’’ارے؟‘‘ حیران ہوتا ہوں لیکن ریت کے ذرے میں سورج دکھا دینا جاوید صاحب کا کمال ہے۔

’ ستیہ جیت رے ‘ کے لیے کہہ دینا : ’’ کیا آدمی تھا رے۔۔۔۔۔‘‘سچ تو یہ ہے کسی بھی شخصیت کی تعریف میں تفصیل سے خوبیاں لکھ دینا ، صفات بیان کردینا ، اتنا مشکل نہیں جتنا ایک شخصیت کو کام و عمل میں دکھا کر اس کی صفات ظاہر کر دینا۔ جاوید نے کچھ نہیں کہا لیکن ’رے صاحب‘ کے ساتھ اپنے تجربے کو بیان کر کے سب کچھ دکھا دیا ، سب بیان کردیا اور ان کے طرز بیان کے لیے مجھے بار بار ’’ارے۔۔۔۔۔ ارے‘‘ کہنا پڑتا ہے۔

سنیے:’’میں بھی ان ہی حویلیوں کا پروردہ تھا جہاں کسی زمانے میں وقت تھم کر بیٹھ گیا تھا اور پھر اینٹ اینٹ بکھیر کر باہر نکل گیا تھا۔‘‘

’’ واجد علی شاہ کی لفظیت دوسری ہے۔ اس میں ایسی نغمگی ہے جو بندش میں آجائے تو ٹھمری معلوم ہونے لگے۔‘‘’’ کلکتہ میرے لیے نیا تھا۔ پہلے بھی کئی بار آچکا تھا مگر وہ شہر مجھے کبھی پسند نہیں آیا۔ جدھر دیکھو ایک بے ترتیب ہجوم دکھائی دیتا تھا۔

بالکل ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے کوئی پرانا پتھر ہٹایا اور نیچے سے لاکھوں چیونٹیاں بلبلا کر باہر نکل آئی ہوں۔ اب اسے وقت کی ستم ظریفی ہی کہیے کہ کچھ دن بعد چیونٹیوں کے اس بے ترتیب ہجوم میں مَیں اور شمع بھی شامل ہوگئے۔‘‘

’’ نمائے گھوش پنجوں کے بل آگے بڑھتے اور فوٹو کلک کر کے اس طرح سیدھے ہوتے جیسے برجو مہاراج توڑا لیتے ہیں۔‘‘

میں کون گلی سے نکروں

ہر موڑ پہ شیام کھڑے

کسی خاکے سے گزر جائیے۔ کسی بھی شخصیت کو چُھو کے نکلیے ، ہر افسانے اور خاکے کے مطلع اور مقطع پر جاوید کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے بغیر یہ شخصیتیں بیان ہو ہی نہیں سکتیں۔ ایک جملے میں اپنی نانی کا حسن بیان کر جاتے ہیں۔’’ حوریں اگر بوڑھی ہوتیں تو بالکل میری نانی جیسی نظر آتیں ! ‘‘اسے ماسٹر اسٹروک کہتے ہیں۔

ایک برش میں پورا پورا پورٹریٹ کھڑا کردیا… پھر کہتے ہیں: ’’کھڑاؤں والی سیدانی کے نام سے مشہور تھیں ، کیونکہ انھوں نے کبھی کوئی جوتا چپل نہیں پہنا۔ سنا ہے شادی کے وقت سہاگ کے جوڑے کے ساتھ کھڑاؤں پہن کر سسرال آئی تھیں اور کھڑاؤں بھی ویسی ہی جیسی شری رام پہنتے تھے اور جو بعد میں بھرت جی نے لے جا کر ایودھیا کے سنگھاسن پر رکھ دی تھیں۔‘‘

’’وہ ایک ایسی ایکٹریس نظر آتی تھیں جو اپنے کیریکٹر کے اندر جا کر باہر آنا بھول گئی ہوں۔‘‘جاوید بولے: ایم ایف حسین کو ہم بھی جانتے تھے ، مگر اس طرح نہیں جس طرح جاوید جانتے تھے۔

ان کی اسٹرگل (Struggle)، ان کی غریبی، ان کی فقیری بھی جانتے تھے مگر فقیری میں بادشاہی جاوید نے دیکھی۔ کھولائی ہوئی چائے کے گلاسوں میں ، تاج ہوٹل میں ایک ٹانگ کرسی پر رکھ کر قیمہ پاؤ کھاتے ہوئے۔ اچھا کیا جاوید صاحب نے وارث علوی سے ملوا دیا ، ان کی گلی اور گھر دیکھ لیا۔ پیڑ بھی دیکھ لیا پام کا! … ایک ملاقات ہی رہی بس، لیکن ان کے اپنے ہی الفاظ میں کہوں۔’’وہ کیا زمانہ تھا جب ملاقات خود ایک وجہ ہوا کرتی تھی ملنے کی!‘‘

سوشلسٹوں میں ہر کمزوری اور خوبی کے ساتھ ایک بڑی خوبی یہ بھی دیکھی ہے کہ بات بڑی بے باکی سے کرتے ہیں۔ شمع اس پر سو فی صدی کھری اترتی ہیں، وہ ایک شخصیت اور رشتے کی کہانی ہے ، شمع زیدی کی شخصیت ایک روشن شمع کی طرح سامنے آتی ہے۔

’’شمع کے پاس ایک Remington Portable ٹائپ رائٹر تھا جسے وہ لاد کر ہر جگہ لیے پھرتی تھیں۔ جب کبھی لکھنے کا وقت آتا تو کچھ یوں ہوتا کہ پہلے سین پڑھا جاتا۔ سین سن کر اگر شمع کا سر ہل جاتا تو یہ سگنل ہوتا کہ گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے۔

وہ Remington کے کی بورڈ پر انگلیاں رکھ کر میرے بولنے کے انتظار میں آنکھیں بند کر لیتیں۔ اس وقت ان کے چہرے پر وہی معصوم سنجیدگی ہوتی جو انڈوں پر بیٹھی ہوئی کبوتری کے چہرے پر ہوتی ہے۔‘‘

اکبری بوا کا پڑھنا ایک دعوت ہے:

’’بوا نے ایک پیڑھی گھسیٹی اور اپنی ٹوکری کے پاس بیٹھ گئیں۔ انھوں نے کسی جادوگر کی طرح ٹوکری پر ڈھکا ہوا گیلا کپڑا ہٹادیا۔ بوا کی ٹکوری کے بیچ میں ایک بڑی مٹکی ہوتی تھی جس میں دہی بھرا ہوتا تھا۔ ایک دوسری چھوٹی مٹکی میں بیسن کی پھلکیاں رکھی رہتی تھیں۔ مٹکی کے چاروں طرف بڑے سلیقے سے مٹی چینی کی چھوٹی بڑی پیالیاں، مسالوں کے ڈبے اور چمچے سجے ہوتے تھے۔

بوا ایک پیالی اٹھاتیں، اسے سوکھے کپڑے سے رگڑ کر صاف کرتیں، پھلکیوں والی مٹکی سے کچھ پھلکیاں نکالتیں اور انھیں پیالے میں رکھ کے ہاتھ سے توڑ دیتیں۔ پھر باری باری سے نمک، موٹی موٹی کُٹی ہوئی لال مرچ ، گرم مسالہ اور چاٹ مسالہ ڈال کر چمچے سے مکس کرتیں ، پھر اتنا دہی ڈالتیں کہ پیالی بھرجاتی۔ دہی کے اوپر ہرے دھنیے کی چار چھ پتیاں رکھتیں اور پسا بھنا زیرہ اس طرح چھڑکتیں جیسے پیالی کو نظر کا ٹیکا لگارہی ہوں۔‘‘

منہ میں پانی آگیا۔ پڑھتے ہوئے مَیں نے کئی بار منہ پونچھا ، پکانا اکبری بوا کا اور پروسنا جاوید صدیقی کا… ماشاء اللہ!        (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔