جماعت اسلامی کراچی کا نیا ایڈیشن

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 18 جنوری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی میں عرصہ دراز سے ملتوی ہونے والے بلدیاتی انتخابات غیر یقینی صورتحال میں منعقد ہوئے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج 24 گھنٹوں کے بعد جاری ہوسکے۔

16 جنوری 2022کو الیکشن کمیشن کے رات گئے اعلان کے مطابق پیپلز پارٹی نے یونین کونسل کی 94 ، جماعت اسلامی نے 86 اور تحریک انصاف نے 40 نشستیں حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کر لی۔ الیکشن کمیشن سندھ کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا عمل انتہائی پیچیدہ تھا۔

کمیشن نے نتائج کی فوری ترسیل کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا نظام RTS اس دفعہ استعمال نہیں کیا اور 12 ہزار کے قریب پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کو مرتب کرنے کے لیے انتخابی عملے کی تعداد نہیں بڑھائی جس کی بناء پر نتائج میں شفافیت کا سوال زیادہ گہرا ہوا۔

پیپلز پارٹی کے فیصلہ ساز ادارہ کے معزز اراکین کو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وفاقی حکومت کے خلاف آٹھ ماہ سے مہم چلا رہے ہیں ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔

اس صورت میں مخالف جماعتوں کا کراچی کی سڑکوں پر متوقع احتجاج سیاسی فضا کو مزید پراگندہ کر دے گا اور ان جماعتوں کے احتجاج سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کی مہم کو نقصان ہوگا۔

اگرچہ سندھ کی حکومت بظاہر انتخابات کے انعقاد کا کریڈٹ خود لے رہی ہے مگر کراچی کے عوام اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ سندھ حکومت نے ہمیشہ انتخابات کو روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔

حکومت سندھ نے کبھی سیلاب، کبھی پولیس کی نفری کی عدم دستیابی اور کبھی ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹروں کو بنیاد بنایا اور گزشتہ ہفتہ اچانک انتخابی حلقہ بندیوں کو منسوخ کرنے کی استدعا کی مگر شاید مقتدر حلقے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملہ پر سنجیدہ تھے۔

سندھ میں دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ اس انتخاب کی ایک خصوصیت جماعت اسلامی کے کراچی کے نئے ایڈیشن کا اجراء تھا۔

جماعت اسلامی مذہبی جماعت ہے، اس بناء پر ہر مہم کا آغاز اسلامی نظام کے نفاذ سے کرتی ہے اور مسلمانوں کو ایڈریس کرتی ہے مگر کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کی پرانی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کی۔ حافظ نعیم نے دو سال قبل اپنی مہم کا آغاز کراچی شہر کے مسائل پر آواز اٹھانے سے کیا۔ حافظ نعیم اور جماعت کے دیگر رہنماؤں نے بلا تفریق مذہب ، مسلک اور قومیت تمام شہریوں کے لیے شناختی کارڈ جاری کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائی۔

یوں مختلف قومی پس منظر رکھنے والے شہریوں کے لیے شناختی کارڈ حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوئیں۔ گزشتہ چند برسوں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے نرخ میں اضافہ سے ہر شخص پریشان ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کردی گئی تھی اور کے ای ایس سی کو متحدہ عرب امارات کی فرم اور پاکستانی سرمایہ کاروں کنسورشیم نے خرید لیا تھا، یوں کے الیکٹرک نامی کمپنی کراچی کے شہریوں کو بجلی کی فراہمی کی ذمے دار قرار پائی تھی۔

70ء کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی نے بھاری صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا مطالبہ کیا تھا تو جماعت اسلامی صنعتوں کو قومیانے کے عمل کو غیر اسلامی سمجھتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی پالیسی میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی۔

90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد جب فری مارکیٹ اکنامی کے اثرات رونما ہونے لگے تو جماعت اسلامی نے قومی صنعتوں کی نجکاری کی مخالفت شروع کی۔ حافظ نعیم کی قیادت میں جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ کی پالیسی اور بجلی کے ٹیرف میں کیے جانے والے اضافہ کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی مسلسل کوشش کی۔

حافظ نعیم کی قیادت میں شہریوں نے کے الیکٹرک کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے کئی دفعہ دھرنا دیا۔ پھر جماعت اسلامی نے وقتا فوقتا شہر کی اہم شاہراہوں پر مظاہرے کیے۔ بعض صحافیوں کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف عملی طور پر احتجاج کیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص پالیسی کی بناء پر شہر کے مختلف علاقوں میں سڑکیں ٹوٹ گئیں اور سیوریج کے پانی کا بہنا روز کا معمول بن گیا، پھر پینے کے پانی کی عدم فراہمی سے عام آدمی کے لیے مشکلات بڑھ گئیں۔ جماعت اسلامی کے مختلف علاقوں میں قائم یونٹس نے شہری مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بینر لگائے۔

نماز جمعہ کے بعد مساجد کے سامنے چھوٹے احتجاج کر کے اور مسائل کے بارے میں پمفلٹ بانٹنے کی حکمت عملی استعمال کی۔ جماعت اسلامی کی سماجی کاموں کی ذیلی تنظیم الخدمت برسوں سے یہ فریضہ انجام دے رہی ہے۔

سندھ میں 2010ء میں جب سیلاب نے تباہی مچائی تو الخدمت نے امدادی کاموں پر توجہ دی مگر جماعت کے کارکن اس وقت صرف مسلمانوں کو امداد دیتے تھے۔

کراچی اور حیدرآباد کو ملانے والی سپر ہائی وے پر متاثرین کے کیمپ میں ہندوؤں کی ایک خاصی تعداد بھی موجود تھی، مگر اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ الخدمت کے رضاکاروں نے صرف مسلمان شہریوں میں امدادی سامان بانٹ تھا۔ اس واقعہ پر اخبارات میں تنقید بھی ہورہی تھی مگر گزشتہ سال جب کورونا کی وبا نے ہر انسان کو متاثر کیا تو حافظ نعیم کی قیادت میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اقلیتی برادری میں امدادی سامان تقسیم کیا۔

حافظ نعیم اور ان کے ساتھیوں نے عیسائیوں کے چرچ اور ہندوؤں کے مندر میں جا کر اسپرے کیا ، یوں جماعت اسلامی کا ایک نیا سیکولر کردار ابھر کر سامنے آیا۔ جماعت اسلامی نے مسلسل بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے انعقاد اور بلدیاتی نظام کے قانون میں تبدیلی کی مہم چلائی۔

جماعت اسلامی نے اس مقصد کے حصول کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مظاہرے کیے اور دھرنے دیے۔ جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے سامنے ایک ماہ تک دھرنا دیا۔

سندھ حکومت نے جماعت اسلامی کے اکابرین سے بلدیاتی قانون میں تبدیلی کا معاہدہ کیا مگر پیپلز پارٹی نے اپنی روایت کے مطابق اس معاہدہ پر عملدرآمد نہیں کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی انتخابی مہم میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کا خوبصورتی سے استعمال کیا۔

جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی دفعہ کھلے چہرے والی خواتین نے ان کے حق میں مہم چلائی۔ معاملہ صرف خواتین تک محدود نہ رہا بلکہ پہلی دفعہ اداکاروں نے بھی سوشل میڈیا کی اس مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ ماضی کے کئی اداکار اس مہم میں شریک نظر آئے۔ اس کے ساتھ موسیقی کا بھی خوب استعمال ہوا۔

خوبصورت آوازوں کے گلوکاروں نے نغموں کے ذریعہ حافظ نعیم الرحمن کی مہم میں جان ڈال دی، پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز میں حافظ نعیم ایک معروف کرکٹر کی ایمان افروز آواز میں نعت رسول مقبول سنتے ہوئے نظر آئے او ر ایک دو وڈیوز میں خود بھی نعت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حافظ نعیم کی اس مہم اور جماعت اسلامی کی چلائی جانے والی دیگر مہموں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ 50ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں جب جماعت اسلامی نے بلدیہ کراچی کے انتخابات میں پہلی دفعہ حصہ لیا تو خواتین کی مخصوص نشست کے لیے امیدوار کھڑنے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ شریعت میں خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جماعت اسلامی نے تو اس دفعہ ٹرانس جینڈر کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دی۔

جماعت اسلامی نے نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لیے کمپیوٹر کی تعلیم کے جدید کورسز کا ایک پروگرام شروع کیا اور اس پروگرام کے انٹری ٹیسٹ میں کئی ہزار نوجوان لڑکے لڑکیاں شریک ہوئے۔ ان کی اس مہم سے خاص طور پر اردو زبان بولنے والے گروہ زیادہ نشانہ ہوئے۔

پروفیسر سعید عثمانی کے والد ڈاکٹر مسعود عثمانی جماعت اسلامی کے بانیوں میں شامل تھے اور ان کی والدہ جماعت اسلامی کی رکن تھیں۔ خود عثمانی صاحب بھی اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل رہے اور جماعت اسلامی کی مختلف پالیسیوں کے ناقد رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی لبرل پالیسیوں کے ذریعہ یورپ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کی طرح ابھر سکتی ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کی اس پالیسی سے جماعت کو خاطر خواہ کامیاب ہوئی ہے۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا نیا ایڈیشن جاری کیا ہے مگر مجموعی طور پر ان کی قدامت پرست پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

جماعت اسلامی کے بارے میں جاننے والے بعض صاحبان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ جماعت اسلامی کا کراچی کا ایڈیشن ہے۔ لاہور کی مرکزی جماعت اس ایڈیشن کو اپنائے گی ، اس سوال کا جواب ابھی آنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔