آئین شکنی کی اصل کہانی

مقتدا منصور  اتوار 6 اپريل 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ان دنوں سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کا معاملہ ذرایع ابلاغ کے علاوہ ہر محفل اور ہر تقریب میں موضوعِ سخن ہے۔ پہلے سے مختلف سطحوں میں منقسم پاکستانی شہری اس مسئلے کی وجہ سے ایک اور تقسیم کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ تقسیم کسی بھی طور جمہوریت نوازوں اور آمریت پسندوں کے درمیان نہیں، بلکہ مسلم لیگ (ن) کے مقلدوں اور قانون کی بالادستی کے خواہشمندوں کے درمیان ہے۔ اس مسئلے پر ذرایع ابلاغ میں بھی واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔

ایک طرف وہ صحافی اور تجزیہ نگار ہیں، جو آمر سے کسی قسم کی ہمدردی نہ رکھنے کے باوجود ہر طریقہ کار کے شدید ناقد ہیں، جب کہ دوسری طرف وہ صحافی اور تجزیہ نگار ہیں، جو  پرویز مشرف کو  لٹکا دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ تقسیم کا یہ عمل یہیں نہیں رکا ہے، بلکہ شہروں اور ان کے باسیوں تک پھیل چکا ہے۔ یعنی اس نے ایک طرح سے لسانی رخ بھی اختیار کر لیا ہے۔ جس کے اثرات شاید ابھی ظاہر نہ ہوں مگر آنے والے وقتوں میں نمایاں طور پر ظاہر ہونے کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر قائم مقدمہ کی نوعیت اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد کی قائم کردہ خصوصی عدالت کی ماہیت پر توہین عدالت کے خوف سے کھل کر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سابق چیف جسٹس اور موجودہ حکومت نے جس انداز میں سابق حکمران کو نشانہ (Victimize) بنایا ہے، اس پر معروف وکیل اور حقوقِ انسانی کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ Selective Justice بالآخر Victimization  کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ حکومت کا یہ اقدام ملک میں جمہوریت کو  نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ اس مقدمہ کے قائم کیے جانے کے پس پردہ مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جائے کہ وطنِ عزیز میں کیا واقعی قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی کوئی  روایت موجود رہی ہے یا یہ محض ذاتی بغض و عناد میں کسی شخص کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی خواہش آئین و قانون کی غلط تفہیم پر اکساتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکمرانوں سمیت جو حلقے آج آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں، کیا ان کا اپنا ماضی کا ریکارڈ آئین و قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے اتنا صاف اور شفاف ہے کہ وہ کسی شخص پر آئین سے انحراف کا الزام عائد کر سکیں۔

مفکرین کا کہنا ہے کہ قانون کی نزاکتوں اور موشگافیوں کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایک ماہرِ قانون (Jurist) وہ شخص ہوتا ہے، جو قانونی امور کی باریکیوں سے واقف ہو اور جسے فلسفہ قانون (Jurisprudence) پر مکمل عبور حاصل ہو اور جو قانون کی زمان و مکان کی مناسبت سے تشریح کرنے کی قابلیت و اہلیت رکھتا ہو۔ لہٰذا عدلیہ کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہنے والا ہر جج یا پیچیدہ مقدمات کی پیروی کرنے والا ہر وکیل قانون دان (Jurist) نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا قانون کو سمجھنا اور اس کی مناسب تشریحات ایک الگ بات ہے، جب کہ قانون کو وسیع تر عوامی مفاد میں استعمال کرنا الگ معاملہ ہے۔

ترقی یافتہ معاشروں میں اعلیٰ پائے کے قوانین اس لیے تشکیل پاتے ہیں، کیونکہ وہاں قانون سازی اور قانون کی تفہیم و تشریح کے لیے ہمیشہ ماہرین قانون کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس تیسری دنیا میں یہ غلط تصور قائم کر لیا گیا ہے کہ ہر وکیل اور جج ماہر قانون ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان جو نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، قانون کی نزاکتوں اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے قحط الرجال سے دوچار ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان میں جہاں دیگر شعبہ جات میں صحیح مہارتوں کا فقدان ہے، وہیں قانون سازی کا عمل بھی بانجھ پن کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ آئین اور قانون سازی کرتے وقت مناسب الفاظ اور صحیح اصطلاحات کے استعمال کے علاوہ جملوں کی ساخت اور ترکیب پر توجہ نہیں دی جاتی، جس کی مثال آئین شکنی کے لیے سنگین غداری کی اصطلاح کا استعمال کیا جانا ہے، جس نے خاصا ابہام پیدا کیا ہے۔

اب اس تناظر میں 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کو بنیاد بنا کر قائم کیے جانے والے مقدمہ پر نظر ڈالی جائے، تو اس کے پس پردہ تنازعات کا ایک طویل سلسلہ نظر آئے گا۔ یہ کہانی 9 مارچ 2007ء سے شروع ہوتی ہے، جب پرویز مشرف نے بحیثیت صدر اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کی جانب سے بھیجی گئی شکایت پر سابق چیف جسٹس کو کام سے روکنے کے بعد ان کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا۔

میرے خیال میں جو آئین کے مطابق درست اقدام تھا لیکن بعض عالمی اور کچھ اندرونِ خانہ قوتیں پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔ اس لیے ہم نے دیکھا کہ اس مسئلے کو سیاسی طور سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش کی گئی اور سڑکوں پر ہی حل کرایا گیا۔ اس کھیل میں سابق چیف جسٹس اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا کردار تو اب واضح ہو چکا ہے۔ لیکن زاہد حامد کے کردار سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا، جو اس وقت وزیرِ قانون تھے اور جنھوں نے 3 نومبر کے حکمنامہ کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔ چیف جسٹس کی بحالی کے فوراً بعد وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے اور فروری 2008ء میں انھوں نے اسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔

اگر انصاف اور قانون کے اصولوں کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو آئین شکنی کی اصل کہانی 3 نومبر سے نہیں، بلکہ اس کا آغاز 12 اکتوبر 1999ء کو ہوا تھا۔ جب فوجی دستوں نے منتخب حکومت کو جبراً گھر بھیجا تھا۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ 12 اکتوبر کے اقدام کے وقت پرویز مشرف جہاز میں تھے اور جن جرنیلوں نے یہ اقدام کیا تھا، ان سب کا تعلق بڑے صوبے اور کشمیری خاندانوں سے تھا۔ لہٰذا کوشش یہ کی گئی کہ 3 نومبر کے اقدام کو بنیاد بنایا جائے۔ مگر اس عمل میں شریک دیگر اہم شخصیات کو بچانے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے، جو اس وقت جنرل کے ساتھ کھڑے تھے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 28، جب کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں درجنوں اراکین ایسے ہیں، جو 2002ء سے جنرل کے ساتھ رہے اور اس کے ہر اقدام کی توثیق کرتے رہے۔ مگر چونکہ آج وہ سب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہیں، اس لیے مخصوص مفادات کی خاطر انھیں ’’سنگین غداری‘‘ کے جرم سے مبرا کر دیا گیا ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ گزشتہ جمعرات کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کی ذمے داری سابق صدر پرویز مشرف پر عائد کر کے الزامات کی نئی داستان رقم کی ہے۔ یہ الزام لگاتے ہوئے وہ مسلم لیگ ن کے سیاسی گرو ضیاء الحق کو بھول گئے، جنھوں نے افغانستان کے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر دنیا بھر سے جنگجو جتھوں کو قبائلی علاقوں میں جمع کیا۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ جس قتل و غارت گری کا تذکرہ کر رہے ہیں، وہ پرویز مشرف کے دور میں نہیں بلکہ 2008ء کے بعد شروع ہوئی۔ اس قسم کے بیانات دراصل جنرل ضیاء جیسے کردار پر پردہ ڈال کر تاریخ کو مسخ کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔

کوئی بھی ذی شعور شخص آئین شکنی کے مرتکب افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لائے جانے کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ بلکہ ہر اس شخص پر آئین شکنی کا مقدمہ چلنا چاہیے، جس نے آئین شکنی کی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔