پاک بھارت مذہبی سیاحت میں مودی حکومت کا کردار انتہائی مایوس کن

آصف محمود  بدھ 18 جنوری 2023
2022ء میں بھی پاکستان نے بھارتی سکھوں اور ہندوؤں کو مذہبی مقامات کی یاترا اور تہواروں میں شرکت کے لئے ویزے جاری کئے

2022ء میں بھی پاکستان نے بھارتی سکھوں اور ہندوؤں کو مذہبی مقامات کی یاترا اور تہواروں میں شرکت کے لئے ویزے جاری کئے

 لاہور: پاک بھارت مذہبی سیاحت کے فروغ میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا کردار ہمیشہ مایوس کن رہا ہے۔

سال 2022ء میں بھی پاکستان نے 1974 کے پاک بھارت معاہدے کے مطابق بھارتی سکھوں اور ہندوؤں کو مذہبی مقامات کی یاترا اورمذہبی تہواروں میں شرکت کے لئے ویزے جاری کئے ہیں لیکن بھارت نے بہت کم پاکستانی زائرین کوویزے جاری کئے جبکہ بھارت جانیوالے پاکستانی زائرین کو پاکستان کے مقابلے میں بہت کم سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے مابین 14 ستمبر 1974 کو ہونیوالے مذہبی سیاحتی ویزوں کی فراہمی کے معاہدے کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزے جاری کرتے ہیں۔

وفاقی وزارت مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی کے مطابق بھارت پاکستانی مسلم زائرین کو ہرسال حضرت مجددالف ثانیؒ، حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابرؒ، حضرت حافظ عبداللہ شاہؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اورحضرت امیرخسروؒ کے عرس میں شرکت کے لئے ویزے جاری کرنے کا پابند ہے۔ صوفیا کرام کے عرس میں شرکت کے لئے 200 پاکستانی زائرین کو ویزے جاری ہوں گے۔

جبکہ دوسری طرف پاکستان معاہدے کے تحت بھارتی سکھ یاتریوں کو باباگورونانک دیوجی کے جنم دن ، گوروارجن دیوجی کے شہیدی دن، وساکھی میلہ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کے لئے ویزے جاری کرنے کا پابندہے۔ جبکہ ہندوؤں کو بھگوان شری رام کے ویاہ کی سالگرہ، شیوراتری، سنت سائیں شادا رام اور سادھوبیلہ مندر میں ہونیوالے مذہبی تہواروں میں شرکت کے لئے ویزا جاری کرتا ہے۔

پاکستان اوربھارت ایک دوسرے ملک کے شہریوں کوہر مذہبی یاترا/تقریبات میں شرکت کے لئے 200 افراد کو ویزے جاری کرتے تھے تاہم 1974 میں جب پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردے دیا گیا توبھارت نے اس کا فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستانی قادیوں کو ویزے دینے کی تعداد 200 سے بڑھا کر غیرحتمی کردی ۔

اب تک کے ریکارڈ کے مطابق بھارت نے پاکستانی 4 ہزارسے زائد قادیانیوں کو ان کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لئے ویزے جاری کئے ہیں۔

ردعمل کے طورپر پاکستان نے بھی بھارتی سکھ یاتریوں کے لیے ویزوں کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اب پاکستان وساکھی میلہ/ خالصہ جنم دن کے لئے 3 ہزار، گوروارجن دیوجی کے شہیدی دن کی تقریبات کے لئے ایک ہزار، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کے لئے 500 جبکہ باباگورونانک دیوجی کے جنم دن کےلیے 3 ہزار بھارتی سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کرتا ہے۔

ضیاالحق کے دورحکومت میں روزانہ کی بنیاد پربھی سینکڑوں سکھ یاتری پاکستان مذہبی یاترا کے لئے پاکستان آتے رہے ہیں۔

متروکہ وقف املاک بورڈ کے حکام نے بتایا کہ پاکستان نے 1999 میں بھارتی سکھوں کو ان کے مزید چار مذہبی مقامات کی یاترااورتہواروں میں شرکت کے لئے ویزے دینا شروع کئے تھے جن میں ساکہ ننکانہ صاحب، گورورام داس جی کا جنم دن ، باباگورونانک کی برسی اوربے بے نانکی کے جنم دن کی تقریبات شامل تھیں لیکن سال 2011 میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر باہمی پروٹوکول ختم کردیا گیا۔

اس وقت بھی بھارت سے ان تہواروں میں شرکت کے لئے بھارتی یاتری پاکستان آتے ہیں جبکہ نومبر2018 سے کرتارپور راہداری کے ذریعے بھی روزانہ پانچ ہزارسکھ یاتری /نانک نام لیوا ویزافری کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ دربارصاحب کرتاپورآسکتے ہیں۔

سال دوہزاربائیس کا جائزہ لیں توپاکستان کے مقابلے میں بھارت نے پاکستانی زائرین کو بہت کم ویزے جاری کئے ہیں۔ بھارتی سکھوں اورہندوؤں کو ان کے تمام مذہبی تہواروں اورمقامات کی زیارت کے لئے ویزے جاری کئے گئے تاہم بھارت کی طرف سے پاکستانی زائرین کو بہت کم ویزے جاری ہوئے۔

فروری 2022 میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے عرس کے لئے پاکستانی زائرین جبکہ ستمبر 2022 میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے عرس میں شرکت کے لئے پاکستانی منتظمین کو ویزے جاری نہیں کئے تھے جس کی وجہ سے پاکستانی زائرین انڈیا نہیں جاسکے تھے۔

حضرت معین الدین چشتی ؒ کے عقیدت مندوں کے ایک گروپ لیڈر میاں فیاض نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا ہم سال بھرمنتیں اوردعائیں مانگتے ہیں کہ ہمارا ویزالگ جائیگا، ویزا درخواستیں بھی جمع ہونے کے بعد ہم روانگی کی تیاریاں کئے بیٹھے تھے لیکن روانگی سے دو روزقبل یہ معلوم ہوا کہ ہمارے ویزے کورونا کوجوازبناکرمستردکردیئے گئے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ بھارت کی وزارت خارجہ کے ساتھ اٹھایا جائے۔

دوسری طرف بھارت میں جانیوالے پاکستانی زائرین کو بھارتی حکومت ،پاکستان کے مقابلے میں بہت کم سہولتیں مہیا کرتی ہیں اورپاکستانی زائرین کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کے عرس مبارک میں شرکت کرنیوالے پاکستانی زائرین کو 60 ہزار روپے کے قریب اخراجات اٹھانا پڑے ہیں۔ جبکہ بھارت سے آنیوالے پاکستانی یاتریوں کے زیادہ سے زیادہ اخراجات ساڑھے 8 ہزار روپے آتے ہیں جو صرف ٹرانسپورٹ کے لئے اداکرناہوتے ہیں۔

اس حوالے سے وفاقی وزارت مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی کے ترجمان عمربٹ نے بتایا ” پاکستانی زائرین کی رہائش کا انتظام بھارتی حکومت نے کرنا ہوتاہے۔ انڈیا میں جن درگاہوں پر رہائش کی سہولت ہے ان جگہوں پرپاکستانی زائرین کو مفت رہائش دی جاتی ہے جن میں اجمیرشریف بھی شامل ہے لیکن جن درگاہوں میں قیام گاہیں نہیں ہیں وہاں قیام کے اخراجات زائرین کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔