سویلین بالادستی…پس پردہ کہانی

زمرد نقوی  اتوار 6 اپريل 2014

سابق صدر پرویز مشرف بالآخر عدالت میں پیش ہو گئے جہاں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ جب کہ انھوں نے الزامات مسترد کرتے ہوئے فرد جرم سے انکار کیا۔ اس موقع پر پرویز مشرف نے اپنا مؤقف اردو میں بیان کرنے کے لیے عدالت سے اجازت چاہی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈالر کو 60 روپے تک محدود رکھا۔ عوام کیا مانگ رہے ہیں‘ غربت دور کرو‘ آمدنی میں اضافہ کرو‘ تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرو‘ اور اشیا خورونوش کی قیمتیں کم کرو۔

3 نومبر کا اقدام وزیر اعظم کابینہ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اٹھایا۔ عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک روانگی کی درخواست نمٹاتے ہوئے فیصلہ میں کہا کہ عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک علاج کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگائی۔ وہ جہاں چاہیں اپنا علاج کرا سکتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ ان کی والدہ علیل ہیں۔ ہماری بھی ذمے داری بنتی ہے کہ ان کو سہولیات فراہم کی جائیں۔

سابق صدر پرویز مشرف پر مقدمے کے حوالے سے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ سویلین بالا دستی قائم ہو گئی ہے۔ اور پاکستان میں بھی وہی کچھ ہونے جا رہا رہا ہے جو ترکی‘ فلپائن اور جنوبی کوریا میں ہوا۔ یہ وہ ملک ہیں جہاں پاکستان کی طرح امریکا کے اہم مفادات تھے۔ ترکی میں طویل عرصہ فوجی آمریت رہی جس کے نتیجے میں کمیونسٹ سوشلسٹ اور اسلامک تحریکیں طاقتور ہونا شروع ہوئیں۔ دوسرا ترکی یورپ کا حصہ ہے۔ ترکی کا عدم استحکام ایک طرف یورپ کو دوسری طرف مڈل ایسٹ کو متاثر کر سکتا تھا۔ اگر یہ دونوں خطے متاثر ہو جاتے تو دنیا پر امریکی بالادستی کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ایک حکمت عملی کے تحت ترکی میں بڑھتے ہوئے اسلامک ریڈیکل ازم کو روکنے کے لیے موجودہ قدامت پسندوں کو لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا نے مسلم دنیا میں انقلابی اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے ماڈریٹ اسلام پسندوں کی سرپرستی کی اور انھیں کو فروغ دیا۔ مزید اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ انقلابی اسلام امریکی مفادات کا خاتمہ کرتا ہے، جیسے ایران میں ہوا تو معتدل مسلم قیادت امریکی مفادات کا تحفظ اس طرح کرتی ہے کہ اسلامی دنیا کے قدرتی وسائل تیل وغیرہ سستے داموں ترقی یافتہ ممالک کو فروخت کر دیے جاتے ہیںجو کہ اس وقت مڈل ایسٹ کی بادشاہتیں اور آمریتیں کر رہی ہیں۔ ترکی میں پہلے فوج سامراجی مفادات کا تحفظ کرتی تھی جب یہ ممکن نہ رہا تو سویلین بالادستی کے نام پر موجودہ حکومتی سیٹ اپ قائم ہوا جو سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کر رہا ہے کہ ترکی آج بھی اسرائیل کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے اور اسلامی دنیا کے ان ملکوں میں سے ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے۔

تو امریکا کو فرق کیا پڑا۔ فرق تو کچھ نہیں پڑا کیونکہ اب تو زیادہ بہتر طریقے سے امریکی مفادات کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ وہ تمام ممالک جو امریکی حلقہ اثر میں شامل ہیں، وہاں امریکی مرضی سے ہی قدم بہ قدم سٹرٹیجک تبدیلیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ اس کے حلقہ اثر میں ایک پتا بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ ہمارے جیسے ممالک سے امریکا جب سٹرٹیجک مذاکرات کر رہا ہوتا ہے تو مذاکرات کے نام پر یہی طویل المدت سٹرٹیجک تبدیلیاں اس کے پیش نظر ہوتی ہیں۔

ہاں کبھی کبھی امریکی حلقہ اثر میں شامل ممالک کے امریکا کے ساتھ تعلقات تلخ اور تضادات شدید ہو جاتے ہیں جیسے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن اور دوسرے معاملات پر ہوا اور آج کل یہ تضادات امریکا اور سعودی عرب کے ایران شام کے حوالے سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس کی روشنی میں پاکستان بھی اس وقت سویلین بالا دستی کے حوالے سے ترکی کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ کیونکہ اب عالمی برادری آمریت کو قبول نہیں کرتی‘ اس لیے پاکستان میں سویلین بالادستی ضروری ہو گئی ہے اور اگر اس قیادت کا تعلق دائیں بازو سے ہو تو وہ زیادہ مناسب ہے۔ اس سے زیادہ آئیڈیل سویلین قیادت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یعنی عوام بھی خوش تو دوسری طرف امریکا بھی خوش۔

جہاں تک ترکی کی طرح فوج پر سویلین بالا دستی کا تعلق ہے، ابھی اس کے لیے بہت سے نازک مقامات سے گزرنا ہے۔ ترکی کی سرحد پر کوئی افغانستان نہیں نہ ہی وہاں کے عسکریت پسندوں کو وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ حمایت حاصل ہے۔ نہ ہی ان کا کوئی انڈیا ہے جس سے انھوں نے دوستی کرنی ہے، مسئلہ کشمیر حل کرنا اور تجارت کرنی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کی طرح عسکریت پسند وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کا جمہوری قوتوں کے خلاف ’’خفیہ ہتھیار‘‘ بھی نہیں۔

پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ منع کرنے کے باوجود پاکستان اس لیے آئے کہ پرویز مشرف وہ پھندہ ہیں جن کو سامنے رکھ کر جمہوری قوتوں کو شکار کیا جائے گا۔

کڑی سے کڑی ملتی جا رہی ہے۔ مستقبل کا (المناک) نقشہ واضع ہو گیا ہے۔  بھٹو ضیا مشرف ادوار میں عسکریت پسند ہماری اسٹرٹیجک گہرائی کا حصہ بنے۔ انھیں پالا پوسا منظم کیا گیا۔ ماڈریٹ روشن خیال‘ جمہوری قوتوں کے خلاف اسی سلسلے میں طالبان کی کابل میں حکومت قائم کی گئی۔ 2013ء کے الیکشن میں یہ فیصلہ انتہا پسندوں کے اختیار میں آ گیا کہ کون سی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں گی اور کونسی نہیں۔یہ ان قوتوں کی طاقت کی انتہا تھی۔

پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں قدامت پسند قوتیں قدم بہ قدم کامیابی حاصل کرتے ہوئے اب اس مرحلے میں آ گئیں ہیں کہ جس میں خطے کے حوالے سے یہ طے ہو گا کہ اس ملک کا نظام کیا ہو گا۔

پرویز مشرف اپنے بارھویں گھر سے نکل گئے ہیں جو ان کا سخت ترین وقت تھا۔ جب وہ اٹھویں گھر میں تھے تو ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔

سابق صدر مشرف کے حوالے سے فوری طور پر اہم تاریخیں 9-8 اور 12-11 تا14 اپریل ہیں۔

گمشدہ ملائیشن طیارے کے ملبے کے حوالے سے اپریل کا دوسرا نصف اہم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔