گفتار کے غازی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 6 اپريل 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک تقریب میں مقررین دھواں دھار تقریریں کر رہے تھے، میں بھی بیٹھا یہ پرجوش تقریریں سن رہا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تمام مقررین جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ میرے دل کی آواز بھی ہے اور اس میں ہی ہمارے مسائل کا حل بھی ہے لیکن نہ جانے کیوں اس دل کی آواز پر میرا دل مطمئن نہ ہو رہا تھا۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا، اسکول کے زمانے سے لے کر اب تک اپنے فرائض منصبی کے لیے بھی سیکڑوں سیمیناروں اور مختلف مذہبی و سیاسی پروگراموں میں ایک سے بڑھ کر ایک پرجوش خطابت سننے کو ملی مگر نہ جانے کیوں دل مطمئن نہ ہوا اور ایک خیال ہمیشہ کھٹکتا رہتا کہ اگر ہم سب اتنے سمجھدار ہیں، اپنے مسائل کو بھی سمجھتے ہیں اور ان کا حل بھی جانتے ہیں تو پھر من حیث القوم ہم سب پستی کا شکار کیوں ہیں؟ یہ قوم کو بھنور سے نکالنے والی لیڈر شپ کہاں ہے؟ یہ ہر طرف ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ کرپشن کون کر رہا ہے؟ ٹی وی مذاکروں میں ٹاک شو میں شریک کوئی ایک بھی سیاسی رہنما ایسا نہیں جو سب سے بڑا محب وطن ہونے کا دعویدار نہ ہو، جو عوام کے مسائل کا درد نہ رکھتا ہو اور جو انتہائی ایماندار نہ ہو۔

یہ سوال بڑا اہم ہے کہ جب ہر طرف واعظ، نصیحتیں اور ہر قسم کی اچھی باتیں کی جا رہی ہوں اور کہیں درجن بھر، کہیں سیکڑوں اور کہیں ہزاروں لوگوں کو نہ صرف ایمانداری، اچھائی کی باتیں بتائی جا رہی ہوں اور مذہبی اعتبار سے بھی کردار سازی کی بات کی جا رہی ہو تو پھر سننے والوں پر اس کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟ سننے والوں پر اگر اثر ہو رہا ہے تو اس کا اظہار ان کے کردار سے کیوں نہیں ہوتا؟ چھوٹے بڑے ہر قسم کے نظریاتی گروپوں میں صبح و شام وعظ بھی جاری ہے لیکن من حیث القوم اس تعلیم اور وعظ کا اظہار عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتا (یعنی لوگوں کی اکثریت پر ان تعلیمات کا اثر نظر نہیں آتا تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارے ہاں باکردار لوگوں کی کمی نہیں ایسے ہی لوگوں سے اس ملک کے ادارے اور معاشرہ رواں دواں ہے)

کسی تقریب میں تعلیمی ادارے کا کوئی سربراہ تقریر کر رہا ہو یا وزیر تعلیم، دونوں کی باتیں اور نصیحتیں ایسی ہونگی کہ ان سے زیادہ طالب علموں کا کوئی ہمدرد نہیں اور دعوے ہوں گے کہ ان کے شعبہ تعلیم کے ادارے میں کوئی کرپشن نہیں اور سارے فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں کیا ہو رہا ہے؟ طلبہ کی پوزیشن بھی برائے فروخت، ٹیچر کی آسامیوں کی بھی بولی اور اپنے حق کے حصول کے لیے احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس کے ذریعے بدترین تشدد۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ میں جمعے کی نماز میں جب بھی مسجد گیا یہی دیکھا کہ نمازیوں کی اس قدر تعداد کہ آخری صف میں بھی بمشکل جگہ ملے، اتنی بڑی تعداد کو نصیحت بھرا خطبہ بڑے اعزاز کی بات، لیکن دوسری طرف میں اپنے فلیٹس کی مسجد میں نماز فجر ادا کرنے جب بھی گیا وہاں تین، چار نمازیوں کو ہی پایا، کبھی کبھار ایسا محسوس ہوا کہ اگر آج فجر میں آنکھ نہ کھلتی تو شاید جماعت کے لیے تین افراد بھی نہ ہوتے۔ میں پھر یہی سوچتا ہوں کہ میرے پلازہ میں ڈھائی سو (250) رہائشی فلیٹس ہیں مگر نماز فجر کے لیے محض چار پانچ ہی نمازی؟ کیا ہم پر نصیحت، واعظ کا اثر نہیں ہوتا یا نصیحت کرنے والے کے وعظ میں اثر نہیں رہا؟ دوسری جانب کوئی مذہبی پروگرام ہو تو اسی مسجد میں سو ڈیڑھ سو افراد رات دیر تک ثواب سمیٹتے نظر آتے ۔

غرض واعظ، نصیحت اور اچھی اچھی تقریروں کے ہم سب ہی صبح و شام نظارے دیکھتے ہیں لیکن حیرت اور دکھ کا مقام یہی ہے کہ یہ سب محض ایک فیشن شو کی طرح ہوکر رہ گیا ہے، کوئی بھی مذہبی، سیاسی یا کسی ادارے کا کوئی پروگرام ہو، اس پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، سیکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں، نہایت اعلیٰ اچھی تقاریر ہوتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم دنیا کی سب سے بہتر قوم اور تاریخی طور پر عروج پر ہے لیکن عملاً دفتروں، بازاروں میں اپنے اعمال دیکھیں تو سر شرم سے جھک جائیں۔

اس سوال کا جواب ایک عرصے سے تلاش کر رہا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب صبح و شام اچھی اچھی باتیں ہوتی ہیں اور ہم سب اپنے آپ کو ایماندار ظاہر کرتے ہیں تو اس کا اثر سننے والوں پر کیوں نہیں ہوتا؟ سننے والے کے عمل میں واعظ اور نصیحت کی جھلک کیوں نہیں دکھائی دیتی؟

اس سوال کا جواب بالآخر مجھے مل گیا، اس سوال کا جواب اس عظیم ہستی کے واقعے سے مل گیا جس کو بلا چوں و چرا تمام مذاہب کے ماننے والے نامور دانشوروں اور مفکروں نے دنیا کا سب سے بہترین انسان تسلیم کیا۔

واقعہ یہ ہے کہ اس عظیم شخص کے پاس ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی کہ جناب اس کو نصیحت کریں یہ میٹھا بہت کھاتا ہے۔ اس عظیم شخص نے عورت سے کہا کہ آپ چند دن بعد آئیں۔ وہ عورت چلی گئی اور پھر چند روز بعد آئی تو اس عظیم شخص نے بچے کو اپنے قریب بلایا اور نصیحت کی کہ بیٹا! میٹھا زیادہ مت کھایا کرو۔ اس نصیحت پر وہ عورت حیرت سے بولی کہ جناب! یہ نصیحت تو آپ پہلی مرتبہ بھی کرسکتے تھے، چند روز بعد بلاکر نصیحت کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس عظیم شخص نے کہا ہاں بات تو آپ کی درست ہے مگر جب آپ پہلی دفعہ آئی تھیں تو میں بھی میٹھا کھاتا تھا، پہلے میں نے میٹھا کھانا کم کردیا پھر بچے کو بلاکر نصیحت کی۔

قارئین ! یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ عظیم شخصیت حضرت محمدؐ کی ہے۔ آپؐ کے اس واقعے میں ان سب سوالوں کا جواب ہے جو راقم نے کالم میں پیش کیے۔

آئیے! ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس پروگرام میں ہم سادگی اور سنت کی بات کر رہے ہوں اس کے انعقاد پر لاکھوں روپے خرچ کردیے گئے ہوں اور بیٹھنے کے لیے فرشی نشست کے بجائے کچھ اور اہتمام ہو؟ یا جس پروگرام میں ہم میرٹ اور اہلیت کی بات کر رہے ہوں وہاں کسی چپڑاسی کو بھی انصاف میسر نہ ہو؟ ایسے اور بھی سیکڑوں سوالات ہوں گے۔ آئیے! ان سب پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہیں ہم محض گفتار کے غازی تو نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔