کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا

سعید پرویز  اتوار 6 اپريل 2014

یہ ایک قافلے کی کہانی، ایک قبیلے کی داستان ہے۔ جو قافلہ صدیوں سے رواں دواں ہے۔ جو قبیلہ صدیوں سے موجود ہے، اس قافلے کے مسافر، اس قبیلے کے لوگ پوری دنیا میں پیدا ہوتے رہے۔ زبان، رنگ، نسل، جغرافیہ سے کہیں بلند یہ لوگ ایک ہی فکر کے علم بردار تھے کہ انسان کی توقیر کی جائے۔ دنیا بھر میں اس کے حقوق مساوی ہیں۔ یہ زمین سب کی سانجھی ہے۔ اس سوچ کا روگ جسے لگ گیا، اس کے حصے میں تو سولیاں، قید خانے، عقوبت خانے، زہر بھرے پیالے، بیڑیاں، حتیٰ کہ کتابوں کو بھی زنجیروں میں جکڑا گیا، یہی سب کچھ ہوتا رہا۔ تاریخ بھری پڑی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ مرحوم شاعر غلام محمد قاصر کے چار مصرعے قارئین تک پہنچا دوں:

کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا

ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

ہے شوق سفر ایسا، اک عمر سے یاروں نے

منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا

صدیوں سے رواں دواں اس قافلے کے لوگوں کا ’’شوق سفر‘‘ ایک ایسا جنون ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا، منزل ملے نہ ملے، بس ’’ہم کو چلنا ہے یونہی رات بسر ہونے تک‘‘۔ مگر رات ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی اور یوں اندھیروں کے خلاف لڑنے والوں کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ منصور حلاج قائم رہا، حاکم سمجھ نہ سکے اور منصور سولی پر بھی سچ بولتا رہا۔ قرأۃ العین طاہرہ، ابوالقاسم لاہوتی، ایران میں قاچاری اور پہلوی دور کے شعرا جن کے جسم میں جلتی موم بتیاں گاڑی گئیں، زندانوں میں ڈالے گئے اور جواب میں وہ شعر پڑھتے رہے۔

یک دست جام بادہ ویک دست زلف یار

رقص چنیں میانہ میدانم آرزو است!

اے خوش آں عاشق سر مست کہ درپائے حبیب

سرودستار نداند کہ کدام اندازد!

ہسپانیہ کا پابلونرودا اپنے ملک میں عوام کے ساتھ مل کر جبر کے خلاف لڑتا رہا، اس کی شاعری عوام کی سمجھ میں آتی تھی، وہ گائوں گائوں، قصبہ قصبہ لوگوں کو اپنی شاعری سناتا رہا، کوئی لالچ اس کی سوچ اس کا رستہ نہ بدل سکا۔ اس پر ستم ڈھائے گئے اور وہ ہر ستم سہتا رہا اور مسکراتا رہا۔ ترکی کا ناظم حکمت، روس کا ماپا کومنسکی، عرب کا محمود ورولیغن، بنگال کا قاضی نذر الاسلام یہ سب اپنے اپنے انقلابی عہد کے اجتماعی ضمیر کی آواز تھے۔ یہ لوگ اپنے عہد کے ظلم، جبر اور جھوٹ کے خلاف سچ کا پرچم اٹھائے رہے اور جاں سے گزرگئے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ زمانہ انھیں یاد رکھے گا یا نہیں، در اصل یہ لوگ ہی یاد رہ جانے والے ہوتے ہیں اسی لیے آج بھی ان کا نام اور کام دونوں زندہ ہیں۔

اتنے بڑے بڑے لوگ اپنے افکار اور کردار کی شمعیں روشن کرتے گئے مگر اندھیرے کم نہ ہوسکے بلکہ آج پوری دنیا میں اندھیرے، رہے سہے اجالوں کو بھی ہڑپ کرنے کے درپے نظر آتے ہیں اور ایسے میں اپنے وطن کا حال دیکھتا ہوں تو لگتا ہے ’’کوئی صدا نہیں کہ جسے زندگی کہوں‘‘ وہی صدیوں پرانے ظلم و جبر اور نا انصافیوں کے پہرے، زمینوں پر چند خاندانوں کے قبضے اور دہقان کے گھر میں فاقے، مگر کوئی نہیں کہ جو ان کھیتوں کو جلا کر بھسم کردے کہ جن سے ’’دہقان کو میسر نہ ہو روزی‘‘ وسائل چند لوگوں کے ہاتھوں میں اور عوام بغیر علاج مر رہے ہیں، تن پر کپڑے نہیں ہیں ’’پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘‘ ماں باپ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے مار کر خودکشی کررہے ہیں۔

گائوں میں ہزاروں انسان، ایک خاندان، ایک حویلی کے یرغمالی بنے رہنے پر مجبور چپے چپے پر خانقاہیں موجود، گدی نشین، حلوے، مانڈوں میں مصروف، جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں کی خوشنودی کی خاطر ایمان فروش کرنے پر ہر لمحہ تیار یہ خانقاہیں یہ گدی نشین … سندھ کا ایک دیوانہ یاد آگیا، اس کا نام تھا حیدر بخش جتوئی، پچاس کی دہائی میں اس دیوانے نے ہاری تحریک کی بنیاد رکھی اور نعرہ لگایا ’’جو بوئے وہی کاٹے‘‘ سندھ بھر کے اس جیسے دیوانے اس کے ساتھ ہولیے، کراچی بھی اس زمانے میں دیوانوں کا شہر ہوا کرتا تھا، حسن عابدی، عارف جلالی، امام علی نازش، حبیب جالب، ڈاکٹر حسان اور دیوانوں کا یہ سلسلہ آگے بھی چلتا رہا، قلعہ لاہور کا قیدی اور شہید حسن ناصر اور وہ سب جن کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے تو کراچی کے یہ سب دیوانے بھی حیدر بخش جتوئی کے ساتھ ہولیے۔

اسی زمانے میں لاڑکانہ میں الیکشن کا رن پڑا، ایک طرف جاگیردار ایوب کھوڑو تھا اور سامنے ہاری رہنما حیدر بخش جتوئی، کراچی کے نوجوان حسن عابدی، عارف جلالی، حبیب جالب، حیدر بخش جتوئی کی حمایت میں لاڑکانہ گئے ہوئے تھے، جہاں رات میں اس جھونپڑی کو آگ لگادی گئی جہاں کراچی کے نوجوان ٹھہرے ہوئے تھے۔ ظلم اور جبر کا یہ سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آرہا بلکہ ظالم اور ان کے قلعے کہیں زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔ مولوی صاحب بھی وڈیرے کی پنچایت میں ہونے والے غیر انسانی فیصلوں کو عین اسلامی قرار دے رہا ہے، مولوی کی خاموشی، رضامندی ہی ہے، ایک شہزادی کی ٹانگ میں درد ہوا اور وہ علاج کروانے لندن چلی گئی، حیرت ہے ہمارے ملک کے ڈاکٹر اس درجے نالائق ہیں۔ ایک شہزادے کی جان خطرے میں ہے، اسے دھمکایا جارہا ہے، ارے بھئی یہاں کسی کی جان محفوظ ہے۔

یہ شہزادے، شہزادیوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ تھر میں آج بھی روزانہ چار چھ بچے مررہے ہیں اور لگتا ہے آہستہ آہستہ، کیا وفاقی کیا صوبائی دونوں حکومتیں مدھم پڑ گئی ہیں۔ تھر کا ایشو پیچھے چلا گیا ہے، آگے پرویز مشرف کا باہر جانا آگیا ہے، طالبان مذاکرات آگے آگئے ہیں، مزید صورتحال یہ ہے کہ ’’پاس لفظ‘‘ یہاں کسی کو بھی نہیں ہے، ہر جماعت میں وڈیرے، جاگیردار، سردار، خان، گدی نشین بیٹھے ہیں، انقلاب کیسے آئے گا۔ اے اقبال! بھوکے دہقان کے لیے ہر خوشۂ گندم کو کون جلائے گا؟ اے فیض ہم کب اور کیسے دیکھیںگے، کوہ گراں روئی کی طرح اڑیں گے، تخت گریں گے، دھرتی تھر تھر کانپے گی، یہ تو قیامت کا منظر ہے، تو چلو یوں ہی سہی قیامت ہی آجائے پھر ان دشمن خلق خدا کا راج نہیں ہوگا۔ اے جالب! وہ آندھی کب محل سرائوں کی طرف لپکے گی کہ جب تخت اور تاج جل کر راکھ ہوجائیںگے اور کلاہ داروں کی صفیں پلٹ جائیںگی۔ یہ سب کچھ کب ہوگا یارو، بس اب یہ سب کچھ ہو ہی جائے۔

اب تو ظلم کی انتہا ہوچکی، سیاست دان آپس میں بیان بازی کے مقابلوں میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جماعتوں کے بیان باز اپنے اپنے اڈوں پر بیٹھ کر بیانات تیار کرتے ہیں اور اخباروں اور ٹی وی چینلز کے ماتھوں پر دے مارتے ہیں سب کے مزے آرہے ہیں لوگ مرتے رہیں کرو تقریر، لوگ کچھ بھی کہیں کرو تقریر سب ہیں خوش حال ہاتھ اٹھائو یوں تماشہ جہاں کو دکھلائو۔

مگر ابھی آخری معرکہ باقی ہے کہ جب اقبال، فیض اور جالب سرخرو ٹھہریںگے، وہ سورج ضرور نکلے گا کہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔