تلاش اقبال

عمر قاضی  اتوار 6 اپريل 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

شاہ لطیف نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ:

’’جب تک روٹھے ہوئے محبوب سے ملاقات نہیں ہوتی

تب تک مجھے چین نہیں آئے گا؛ رقیب نے دوری پیدا کرکے محبت کو شدید کردیا ہے‘‘

اس حوالے سے ہمیں ان لوگوں کا احسان مند ہونا چاہیے جنہوں نے علامہ اقبال کے حوالے سے تنقید کے کچھ الفاظ لکھ کر ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم فن و فکر کے اس سمندر میں اپنے کاغذ کی کشتی کو کچھ دور تک لے جائیں، جس سمندر کا نام اقبال ہے۔ جب میں ایک اداس کیفیت میں ’’کلیات اقبال‘‘ کو لے کر بیٹھ جاتا ہوں، تب اقبال کے اشعار میری آنکھوں میں اس طرح ابھرتے رہتے ہیں جس طرح ساحل پے بیٹھے ہوئے شخص کی آنکھوں میں سمندر کی لہریں۔ اک لہر ابھی ساحل سے ٹکراتی نہیں تو دوسری ٹکرانے کے لیے بے چینی کی آغوش سے جنم لیتی ہے۔ اس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی آنکھوں میں یہ کائنات ایک سمندر کے مانند ہوا کرتی تھی اور ان ستاروں، سیاروں اور قدرت کے حسین نظاروں کے ہر لحظہ بدلتے ہوئے رنگوں کی لہروں کو دیکھتے ہوئے وہ انھیں اپنے اشعار میں ڈھالتے جاتے تھے اور ایک ایسی غزل تخلیق ہوجاتی تھی:

گیسو تابدار کو اور بھی تابدار کر

قلب و نظر شکار کر عقل و خرد شکار کر

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تو ہے محیط بے کراں، میں ہوں ذرا سی آب جو

یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر

ایسی کیفیت صرف وہ انسان محسوس کرسکتا ہے جو اپنے دل کو ایک ساز بنا کر اپنے احساسات کی ساری تاریں کائنات کے مغنی کی انگلیوں کے حوالے کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ مجھے ایک عظیم نغمے میں تبدیل کرو۔ علامہ اقبال کی شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر پھر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کے اشعار کو چھوا بھی نہیں ہے۔ غالب نے اپنے آپ کو ایک ایسے باغ کی بلبل کہا تھا جو ابھی پیدا نہیں ہوا اور اقبال ایک ایسا باغ ہیں جس پے ابھی تک وہ پرندے داخل نہیں ہوئے جو اس باغ کے حسن کو اپنے نغموں میں بیان کریں۔ ہم تو وہ تتلیاں بھی نہیں جو کلام اقبال کے گلابوں پر اڑیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کریں جس ماحول کے لیے باغ بلبل اور تتلیاں جنم لیتی ہیں۔

ہم نے علامہ اقبال کو ’’حکیم امت‘‘ تو قرار دیدیا مگر ہم ابھی تک ایسے مریضوں کی طرح ہیں جن کا علاج نہیں ہوا۔ یہ معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہے اور بیمار معاشرے میں اس قسم کی باتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جس طرح گزشتہ چند دنوں سے علامہ اقبال کے حوالے سے ایسے مباحثے جنم لے رہے ہیں، جن کا اقبال کی شخصیت اور شاعری سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے تاریخ میں جن شعرا کو عظمت کی مسند پر بٹھایا ہے ان کے دور کو جب ہم یاد کریں گے تب ہمیں محسوس ہوگا کہ جب یہ دنیا حرص و ہوس کے دلدل میں دھنسی جارہی تھی، تب وہ اپنے فن کی شاخ پر بیٹھے ہوئے پرندے کی طرح ہمیں بتا رہے تھے کہ ہمیں اس راستے سے بچنا ہے جو راستا انسانوں کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔

یونان کے عظیم شاعر ہومر نے ایلیڈ اور اوڈیسی کے عنوان سے جو طویل گیت تخلیق کیے ان میں اپنے دور پر ایک ایسی طنز تھی، جو صرف اس دور کے باشعور لوگ محسوس کر سکتے تھے۔ شاعر تاریخ کے بطن سے اس لیے پیدا ہوتے ہیں تاکہ وہ اس سفر میں رہنمائی کرنے والے ستاروں کا کردار ادا کرسکیں۔ وہ ہمیں حوصلہ فراہم کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں صرف دولت اور طاقت سب کچھ نہیں ہے بلکہ انسان کا حسن اور عشق کی طرف لگاؤ اور اس کی معاشرے کی طرف مجموعی ذمے داری والا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ انگریز بہت تیکھی تنقید کرتے ہیں مگر انھوں نے کبھی شیکسپیئر پر اس اعتراض کی کیچڑ نہیں اچھالی کہ انھوں نے برطانیہ کی سیاست میں وہ کردار کیوں ادا نہیں کیا جو ایک جینیس کو ادا کرنا چاہیے۔

کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایک شاعر کو صرف اپنی تخلیق سے ناپا اور تولا جاتا ہے۔ اگر شیکسپیئر کی بات بہت پرانی ہے تو ہم انگریزی ادب کی تاریخ کے ان رومانوی شعرا کو کیا کہیںگے جنہوں نے بغاوت سے بھرپور گیت تو لکھے اور اپنے دور میں اٹھنے والی ترقی پسند تحریک کا ساتھ بھی دیا مگر ان پر پھر بھی جب بات چیت ہوتی ہے تو ہم شیلے اور کیٹس کی ان گیتوں کو یاد کرتے ہیں جن میں محبت ہے، جن میں انسانیت کے درد کا بیان ہے اور جن میں ان خوابوں کی کائنات ہے جو ہر شاعر اپنے شعور میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہم علامہ اقبال کے حوالے سے ان حاصلات سے ابھی تک بہت دور ہیں جن کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ علامہ اقبال نے چاہا تھا کہ ہم ایسے شاہین بنیں جو پہاڑوں کے چٹانوں میں اپنے آشیانے بناتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اشعار اس لیے نہیں لکھے کہ انھیں پڑھا جائے اور مسرت حاصل کی جائے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا اصل خواب یہی تھا کے ایک ایسی نسل پیدا ہو جو ستاروں پر کمند ڈالنے کی جرات کرسکے۔ ہمارے وہ جدید دانشور حضرات جو اسلام آباد کے سرسبز اور پرسکون ماحول میں تاریخ کا تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں اور بہادری کا معیار یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کے سیاسی کردار پر تنقید کریں وہ اہل قلم حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقبال پر تنقید کرنے میں کوئی خطرہ نہیں۔ مگر انھیں اعتراض ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں خطرات کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟

وہ سیاسی اختلافات کے حوالے سے اپنے دور کے حکمرانوں سے اس طرح کیوں نہیں الجھے کہ انھیں پابند سلاسل کیا جائے۔ لیکن اگر اس دور میں اقبال بھی وہی کچھ کرتے جو بھگت سنگھ نے کیا تو ہمیں وہ کلیات اقبال کیسے مل پاتی جو بیمار اقوام کے لیے نسخہ شفا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ باغی لوگ اپنے کردار سے تاریخ کو نیا موڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا کردار وہاں تک محدود رہتا ہے، جب کہ شاعر کا کردار ہر دور کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے صرف اپنے دور کو بیدار کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اس دور کی آنکھوں سے بھی نیند نکالنا چاہتے ہیں جو دور اپنے سارے علم اور معلومات کے ساتھ غلامی کا جدید ترین دور ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر علامہ اقبال اس دور میں جنم لیتے تو ان کی شاعری میں تلخ نوائی کا انداز زیادہ گہرا اور کاٹنے والا ہوتا۔

کیوں کہ وہ دور برصغیر کہ مسلمانوں کے لیے بیداری کا ایسا دور نہیں تھا جیسا آج ہے۔ ہم اقبال پر تو یہ تنقید کرتے ہیں کے انھوں نے جلیانوالا باغ کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اقبال پتے کاٹنے میں یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ جڑوں پر چوٹ لگانے کے قائل تھے۔ اس لیے علامہ اقبال نے برطانوی راج کے فکری وجود پر ایسی ضرب لگائی، جس سے ایک ایسا حوصلہ پیدا کیا جس حوصلے سے برصغیر کے مسلمان اتنے باہمت اور باعمل ہوئے کہ اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی انھوں نے دنیا کے نقشے پر ایک ملک کو تخلیق کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ اگر علامہ اقبال کے اشعار نہ ہوتے تو شاید ہم اس ملک میں آزاد انداز سے تنقید کی عیاشی بھی نہ کر رہے ہوتے۔

علامہ اقبال کے دل میں بھی ہمیشہ یہ بے چینی رہتی تھی کہ وہ شاعری کو چھوڑ کر عمل کے میدان میں آجائیں مگر ان کے دوست اور رفقا ان کی منتیں کرتے تھے کہ سیاسی عمل میں تو بہت سارے لوگ ہیں لیکن فکر کی دنیا میں کوئی ایسی قندیل نہیں جو اس اندھیرے کا مقابلہ کر پائے۔ اس لیے علامہ اقبال نے اپنی شاعری کی وہ شمع جلائی جس سے صرف اجالا ہی نہیں بلکہ وہ پروانے بھی پیدا کیے جو آج بھی کلام اقبال پر رقص مستانہ کرتے ہیں۔ جب وہ ’’ساقی نامہ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خرد ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس غلامی کے صحرا سے نکلنے کے لیے پیروں کو نوجوان قیادت قبول کرنی چاہیے۔ جب ہم اپنی زندگی کے مسائل میں الجھ کر مقصد حیات سے بھٹک جاتے ہیں تب اقبال ہمیں محبت سے بتاتے ہیں کہ:

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

اس دنیا میں ایسے شعرا بہت کم پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے کلام میں اپنے دور کے حالات اور تاریخ کا تجربہ اور مستقبل کا شعور ایک ساتھ سمایا ہو۔ اتنے بڑے علم اور وسیع مطالعے اور ان کے ساتھ ساتھ اپنے دور میں فکر اور فہم کی قیادت کرنے کے باوجود علامہ اقبال کے وجود میں وہ بے چین شاعر آخر تک موجود رہا جس کا اظہار ان کے اس شعر میں ہے کہ:

ڈھونڈتا رہتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو

آپ ہی شاید مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں

اور ہمیں یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ مغنی مسافر اپنی منزل اس صورت میں حاصل کرسکتا ہے جب ہم اس اقبال کو دریافت کریں جس کی ہم نے ابھی تک تلاش بھی شروع نہیں کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔