حکومتی معاشی ٹیم میں وقارمسعودکی شمولیت کا امکان

شہباز رانا  جمعرات 19 جنوری 2023
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بھاری بھرکم ٹیم میں پہلے ہی نصف درجن افراد شامل ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بھاری بھرکم ٹیم میں پہلے ہی نصف درجن افراد شامل ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اسلام آباد: وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ایک اور پرانے ماہر معاشیات کو لا کر اپنی اقتصادی ٹیم کو مزید وسعت دینے کی تیاری کرلی۔

سابق سیکرٹری خزانہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی رہنے والے ڈاکٹر وقار مسعود خان کو اسحاق ڈار کی معاشی ٹیم کا رکن بنایا جا سکتا ہے جو پہلے ہی 6 افراد پر مشتمل ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ وزیرخزانہ نے اپنے معاونین کو بتا دیا ہے کہ ڈاکٹر وقار مسعود خان کسی بھی وقت ٹیم میں شامل ہوسکتے ہیں۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اسحاق ڈار ممکنہ نئے ٹیم ممبر کو ان کے پورٹ فولیو سے قطع نظر کرتے ہوئے اب کیا ذمہ داریاں سونپیں گے؟

اس سے قبل ڈاکٹر وقار وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، یہ ایک ایسا عہدہ جسے اب دو افراد نے مل کر سنبھالا ہوا ہے اور دونوں صاحبان ممکنہ طور پر پالیسی اور آپریشنل معاملات کو الگ الگ دیکھ رہے ہیں۔

گزشتہ سال ستمبر کے آخر میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اسحاق ڈار نے طارق باجوہ کو وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے خزانہ اور طارق پاشا کو وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے ریونیو بنوایا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اشفاق تولہ کو وزیرمملکت کے عہدے کے مساوی ’’ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیشن‘‘ کا چیئرمین بنایا۔

اسحاق ڈار نے ڈاکٹر عائشہ پاشا کو وزیر مملکت برائے خزانہ، حامد یعقوب شیخ کو سیکرٹری خزانہ اور اویس منظور کو اسپیشل سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر برقرار رکھا۔

ڈاکٹر عائشہ پاشا نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی تھی لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ تاہم اب ان کی ذمہ داریاں زیادہ تر پارلیمانی امور تک محدود ہیں جبکہ طارق باجوہ کو بیوروکریسی اور وزیر خزانہ کے دفتر کے درمیان ایک پل سمجھا جاتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار اب ڈاکٹر وقار مسعود خان کو کون سی ذمہ داریاں سونپتے ہیں کہ جنہیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاملات نمٹانے میں مہارت حاصل ہے۔

تاہم وزیرخزانہ کی جانب سے اپنے تین قابل اعتماد افراد کو آن بورڈ لانے کے فیصلے نے پہلے ہی معاشی ٹیم کو بہت بھاری بھرکم بنا دیا ہے، تاہم اس کے باوجود معاشی پالیسی اور انتظامی فیصلہ سازی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

ایسا بھی لگتا ہے کہ معاشی ٹیم میں اس بات پر بھی اتفاق رائے نہیں ہے کہ آیا ملک کی معاشی بقاء کا راستہ آئی ایم ایف سے ہوکر گزرتا ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔