- پاکستان سپر لیگ نے عالمی سطح پر اپنی شناخت بنالی ہے، نجم سیٹھی
- گلگت بلتستان میں 3 جدید سائنس لیبارٹریاں بنانے پر اتفاق
- سیالکوٹ میں شادی سے انکار پر پانچ بچوں کی ماں قتل
- حکومت اور اپوزیشن میں کوئی صلاحیت نہیں ہے، شاہد خاقان
- پیپلزپارٹی کا عمران خان کو قانونی نوٹس بھیجنے کا اعلان
- جعلی لیڈی ڈاکٹر بن کر ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- ڈیرہ غازی خان میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، دو دہشت گرد ہلاک
- کراچی میں اتوار کی صبح بوندا باندی کا امکان ہے، محکمہ موسمیات
- ای پاسپورٹ فیس میں اضافے کی خبریں بے بنیاد قرار
- متحدہ عرب امارات کے صدر پیر کو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے
- اسلام آباد میں پیر کو چھٹی کا اعلان
- امریکی رکن کانگریس نے اے آئی سافٹ ویئر سے لکھی تقریر پڑھ ڈالی
- بسکٹ ہمارے وزن میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، تحقیق
- جرمنی نصب کی جانے والی آئی میکس اسکرین نے دو گینیز ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیے
- مری ڈسٹرکٹ اسپتال کی مسروقہ تینوں ڈائیلاسز مشین برآمد، ڈاکٹراور خریدار گرفتار
- پاکستانی زائرین نے درگاہ اجمیر شریف پر چادر چڑھائی
- عمران خان کے آصف زراری مخالف بیان پر وزیراعظم دفاع میں سامنے آگئے
- عمران خان جو بھی فیصلہ کریں ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، حبہ چوہدری
- الیکشن کمیشن دھمکی کیس، فواد چوہدری مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
- سونے کی فی تولہ قیمت میں مزید 6500 روپے کا اضافہ
کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟ سپریم کورٹ

اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ پارلیمان کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے قانون سازی کا اختیار ہے، نیب ترامیم کالعدم کرنے پر عدالت کو بتانا ہوگا نیب ترامیم جیسی قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی، صرف وہی قانون کالعدم ہو سکتا ہے جو بنانے پر آئینی ممانعت ہو اور عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کیلئے کی گئی قانون سازی بھی کالعدم ہوسکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پھانسی کی سزا ختم کرنا آئینی عمل ہوگا؟ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟۔
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پارلیمان کو قانون سازی کیساتھ قانون واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے؟ نیب پبلک پراپرٹی کے مقدمات بناتا ہے جو عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ برطانیہ میں سزائے موت کسی جرم میں نہیں دی جاتی، سزائے موت کے خاتمے کے قانون کا اطلاق زیرالتواء مقدمات پر بھی ہوا تھا، برطانیہ ان ممالک کیساتھ ملزمان حوالگی کا معاہدہ نہیں کرتا جہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شرعی قانون میں سزائے موت موجود ہے، کیا شرعی اصولوں کیخلاف قانون سازی کی جا سکتی ہے؟ درخواست گزار کے مطابق احتساب اسلام اور آئین کا بنیادی جزو ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام میں دیت اور قصاص کا تصور بھی موجود ہے، ورثاء دیت کے عوض جرم معاف کر سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت قوانین کا جائزہ آئین اور بنیادی حقوق کے تناظر میں ہی لے سکتی ہے، کیا عدالت کچھ اور نہ ملنے پر شرعی تناظر میں قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے؟۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ شریعت کے تحت قوانین کا جائزہ صرف شرعی عدالت لے سکتی ہے، نیب ترامیم کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تناظر میں نہیں لیا جا سکتا، اجماع اور اجتہاد کے اصول ریاستی ادارہ پارلیمان استعمال کر رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن میں امانت اور خیانت کے اصول واضح ہیں، خائن کیلئے قرآن کریم میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، عدالت میں بحث جرم کی ہیئت تبدیل کرنے کی ہے، سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہمیشہ ماضی سے ہوا ہے، نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
عدالت نے مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔