- لاہور ہائیکورٹ کا 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنے کا حکم
- مسلمان مسائل کی جڑ، ہندوؤں کے برابر نہیں ، بی جے پی رہنما کی ہرزہ سرائی
- روپے کی قدر کم ترین سطح پر، معاشی مشکلات میں اضافہ
- کویت پٹرولیم کیلیے 27ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی منظوری
- ملک میں زلزلے سے جاں بحق افراد کی تعداد 9 ہوگئی
- عمران خان کی ضمانت منظوری کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
- مہنگی ترین اشیا، شہری محدود خریداری پر مجبور
- 2022 ، سندھ میں کاروکاری کے الزام میں 152 خواتین اور 65 مرد قتل
- سحری کے اوقات میں گیس ملے گی یا نہیں، شہری پریشان
- ون ڈے ورلڈکپ؛ ممکنہ تاریخوں اور وینیوز کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا، نام سامنے آگئے
- ذیابطیس کے 4 لاکھ مریض معذور ہوجاتے ہیں، ماہرین طب
- شکر کا جذبہ، شدید ذہنی تناؤ کو کم کر سکتا ہے
- کمسن بچوں کے ساتھ خودکشی کے واقعات
- ٹیم کا مزاج بدلنے کیلیے شاہین موزوں کپتان قرار
- گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے
- افغانستان سے سیریز، عباس آفریدی کو منتخب نہ کیے جانے پر مدثر نذر حیران
- رمضان کے آخری عشرے میں حرمین شریفین کیلیے پرمٹ کی شرط ختم
- دنیا کا اولین کمپیوٹر ماؤس اور کوڈنگ سیٹ، 178,936 ڈالر میں نیلام
- ایشیاکپ پی سی بی کیلیے گلے کی ہڈی بن گیا
- ون ڈے ورلڈکپ، بھارت گرین شرٹس کو ویزے دینے پر آمادہ
کترینہ کیف کی ڈپلومیسی
لگتا ہے کرینہ سیف نے امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف کو پسپا کر دیا ہو کیوں کہ اس طرف سے کرینہ سیف کے تابڑ توڑ، موسلادھار، لگاتار اور ریپڈ فائرنگ بدستور چل رہے ہیں جب کہ امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف کی طرف سے اکادکا فائر کے علاوہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ کرینہ سیف کا جارحانہ، ظالمانہ اور وحشیانہ حملے ہوں لیکن ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید کترینہ کیف نے سوچا ہو کہ جواب جاہلاں سے بہتر خاموشی ہے، یا اس نے کہیں سے ایک ’’دھماکہ‘‘نام کی عورت کی کہانی سن لی ہو۔
دھماکہ نام کی بیوہ عورت بہت زیادہ لڑاکو تھی جس پر اپنے منہ کا پٹہ کھول دیتی پھر اس و قت نہ چھوڑتی جب وہ فرار نہ ہوجاتی یا جاتا، اس کی یہ شہرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ گھر، محلے سے نکل کر پورے گاؤں بلکہ شہر میں پھیل گئی تھی اور وہ اصل نام کے بجائے ’’دھماکہ‘‘ کی عرفیت سے معروف ہوگئی تھی۔
شوبزسے واقف لوگ اسے کرینہ سیف کہنے لگے تھے جب کوئی اسے دور سے آتی ہوئی دیکھتا تو راستہ بدل دیتا یا کوئی کونا کھدرا پکڑ لیتا کیوں کہ کسی کو بھی اپنی درگت بنانا مقصود نہیں تھا۔ چمپئن تو وہ بن گئی تھی لیکن یہ چمپئن شپ ایک دن خود ہی اس کے راستے کا روڑا بن گئی، اس کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا جوان ہوگیا لیکن کوئی اسے اپنی بیٹی دینے کو تیار نہیں تھا ۔
دہن شیر میں جابیٹھے لیکن اے دل
نہ کھڑے ہوجیئے کرینہ لگاتار کے پاس
اس نے بہت جتن کیے، اس کا بیٹا اچھا بھلا خوبصورت نوجوان بھی تھا ،ایک بڑی جائیداد کا وارث بھی تھا،کسی بھی لڑکی کاآئیڈل ہوسکتاتھا لیکن ’’دھماکہ‘‘ کے ڈرسے سارے خاندان انکاری ہوگئے۔
کچھ لوگوں نے تو صاف صاف منہ پر کہہ دیا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو جیتے جی درگور نہیں کرسکتے لیکن ایک دن لوگوں نے یہ خبر بڑی حیرت سے سنی کہ ایک خوبصورت، تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی لڑکی نے یہ رشتہ منظورکرلیا حالاںکہ اس کے ماں باپ نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی۔
اس نے اعلان کردیا کہ شادی کروں گی تو اس طوفان دہان کلاشن کوف بہ زبان دھماکہ کے بیٹے سے کروں گی ورنہ نہیں کروں گی ۔شادی ہوگئی تو پڑوسیوں نے دیواروں پر سپائی کیمرے فٹ کردیے کہ بریکنگ نیوز میں سبقت کوئی اور نہ لے جائے،کچھ روز تو خیرت سے گزرے ، لوگ مایوس ہوگئے کہ شاید دھماکہ سدھر گئی ہو یا بیٹے کی خاطر برداشت کررہی ہو اور وہ واقعی اپنی زبان کی کجھلی برداشت کررہی تھی لیکن ایک روز آتش فشاں پھٹ پڑا۔
دھماکہ نے دلہن کے بند کمرے کے سامنے کھڑے ہوکر ڈزا ڈزکردی۔دھماکے سن کر ایک دم ارد گرد کی دیواروں پر پڑوسیوں کے سر اگنے لگے۔
دھماکہ دلہن کے کمرے کی طرف آگے پیچھے پیچھے شرارے چھوڑ رہی تھی، منہ سے گالیاں، کوسنے، بددعائیں ایک ساتھ نکل رہی تھیں۔
اٹھو! بس بہت ہوگیا، بی بی جان، بیگم جان، دوپہرہوگئی اور تم پڑی سورہی ہو، بس بہت ہوگیا، لاڈلاپن اوردلہناپا۔اب اپنا کام سنبھالو ،میں کوئی تیرے باپ کی نوکرانی نہیں جو تجھے تیارکرکے کھلاؤں، پلاؤں، دو جماعت کیا پڑھ گئی کہ گھر گرہستی سے ہاتھ اٹھا لیا۔
بیٹا کام پر نکلا تھا اور دھماکہ کے لیے میدان خالی تھا، جب یہ خوب ہلکان ہوگئی تو دلہن کا دروازہ دھیرے دھیرے کھلا۔ ایک ہاتھ باہر آیا، ہاتھ میں جوتی تھی۔جوتی دہلیزکے ساتھ کھڑی ہوگئی اور ہاتھ اندرغائب ہوگیا،دھماکہ نے چھوٹی سی بریک لگا کر جوتی کو دیکھا اور پھر پھٹ پڑی ،یہ دیکھو لوگو، اب میں جواب کی قابل بھی نہیں رہی، جوتی سامنے کر دی،گویا میں پاگل ہوں ۔
اس کی زبان سے شعلے، انگارے، دھواں سب کچھ ساتھ نکل رہا تھا، وہ جوتی کو دیکھ دیکھ کر اشارے کرکرکے کوسنے دے دے کر ہلکان ہوگئی تو جوتی اٹھا کر زمین پر مارنے لگی، پھر جوتی پر کودکود کر اسے کوسنے لگی۔
اس کا پارہ چڑھتا رہا ،والیوم بڑھتا رہا ،اسپیڈ ہائی ہوتی رہی اور پھر اچانک وہ گرکر بے ہوش ہوگئی لیکن زبان پھر بھی بند نہیں ہو رہی تھی، اس کے بعد پھر کسی نے اس کی آواز نہیں سنی، باقی سارے الفاظ بھول گئی اورصرف ’’ہوں ہاں‘‘تک محدود ہوگئی۔
ہمیں بھی کچھ ایسا لگ رہا ہے جیسے کترینہ کیف نے بھی کرینہ سیف کی طرف وہی جوتی والی ڈپلومیسی اپنالی ہو۔ جسے کرینہ سیف اپنی فتح سمجھ رہی ہو، کہیں وہ اس کی شکست تو نہیں بننے والی۔لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ کرینہ سیف ’’بینگن‘‘ کی نوکرنہیں بلکہ خان اور بیگم شرمیلی ٹیگوری کی نوکر ہے اور اسے پٹودی خاندان کی ’’بیگم صاب‘‘ بننا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔