پاک روس تعلقات کی نئی جہت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 21 جنوری 2023
روس کے وزیر توانائی نے وزیر اعظم کو روسی صدر ولادی میر پیوتن کا خصوصی پیغام پہنچایا۔ فوٹو اے پی پی

روس کے وزیر توانائی نے وزیر اعظم کو روسی صدر ولادی میر پیوتن کا خصوصی پیغام پہنچایا۔ فوٹو اے پی پی

وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف سے روس کے وزیر توانائی نکولے شول گینوف کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی۔ لاہور میں ہونے والی ملاقات میں روس کے وزیر توانائی نے وزیر اعظم کو روسی صدر ولادی میر پیوتن کا خصوصی پیغام پہنچایا۔

صدر پیوتن نے اپنے پیغام میں پاکستان کو جنوبی ایشیا اور عالم اسلام میں روس کا اہم پارٹنر قرار دیتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے روس کی بھر پور دلچسپی کا اعادہ کیا، جب کہ پاکستانی وزیراعظم نے تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی معاملات میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کی کوششوں پر اطمینان کا اظہارکیا۔

ملاقات میں پاکستان کو طویل المدتی بنیادوں پر تیل اور گیس کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا گیا ، گیس پائپ لائنز سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔

بلاشبہ روس کی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے اور یہ صورتحال دراصل صدر پوتن کی سوچ میں تبدیلی کی مرہون منت ہے۔ صدر پوتن اب دنیا کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان ایک اہم ملک ہے اور اس کی ایک اہم وجہ پاکستان کی جغرافیائی (جیو پولیٹیکل) اہمیت ہے۔

روس میں پاکستان کے لیے خیر سگالی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ خطے میں جیوا سٹرٹیجک رجحانات نے پاکستان اور روس کے لیے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع وہ عنصر ہے جو موجودہ عالمی ماحول میں اسے اہم بناتا ہے۔

تاریخی طور پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز دیکھنے میں آتے ہیں۔ کبھی دونوں ملک اتنے قریب آئے کہ روس نے پاکستان کے صنعتی شہر کراچی میں اسٹیل مل قائم کرنے میں بھر پور مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی، جب کہ دوسری طرف افغانستان جنگ کے دوران اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔

تاہم بعض ماہرین کے خیال میں حالیہ برسوں میں دونوں طرف برف پگھلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اب پاکستان اور روس کے تعلقات میں نرمی اورگرمی پیدا ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی قربتوں کو مثبت سمت بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

بین الاقوامی برادری میں پاکستان ، روس اور چین کی صورت میں ایک نیا بلاک بنتا دکھائی دے رہا ہے جس کی دو اہم وجوہات ہیں ایک تو بحر ہند اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک براہ راست رسائی اور دوسرے روس کی وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے واخان بارڈر کے ذریعے پاکستان تک رسائی ہے۔

اس کے علاوہ اگر روس کو اکنامک کوریڈور سے منسلک کر دیا جائے تو پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک اور روسی منڈیوں تک براہ راست رسائی ملنا ممکن ہے۔

اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے آئے روز پاکستان کی عسکری امداد روک دی جاتی ہے یا کبھی عسکری تجارتی معاہدے معطل کر دیے جاتے ہیں تو اس صورت میں روس کو عسکری ٹیکنالوجی کے حوالے سے مغرب کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ عالمی اور علاقائی ماحول میں سنگین پیچیدگیوں کے پیشِ نظر، پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ملکی سیاسی استحکام کے حصول اور اپنے سنگین معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کرے کیونکہ بین الاقوامی سیاست میں وقت کی اہمیت ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے ، پاکستان اندرونی عدم استحکام کے مرحلے میں الجھا ہوا ہے جو کہ خاص طور پر نہ صرف ہمارے خطے میں بلکہ عام طور پر پوری دنیا میں بڑھتے ہنگاموں کے ساتھ منسلک ہے۔

ایک طرف یہ کلیدی پالیسیوں، خاص طور پر اقتصادی میدان میں آزادانہ انتخاب کرنے میں پاکستان کی مشکلات کو بڑھاتا ہے، جب کہ دوسری طرف، یہ غیر معمولی سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے علاقائی نقطہ نظر کو اپنانے کی راہ میں بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

نیا عالمی سیاسی منظر نامہ موجودہ حکومت سے یہ بھی تقاضا کرتا ہے وہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے کیونکہ ہمیں امریکا اور مغرب کے ساتھ بھی بہتر تعلقات برقرار رکھنا ہیں ، گو کہ امریکا کو افغانستان میں فوجی شکست ہوئی ہے جب کہ کچھ اور محاذوں پر اسے پیچھے ہٹنا پڑا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دو ، چار شکستوں سے گھبرا کر عالمی طاقتیں وسطی ایشیاء میں اپنی مداخلت کا کھیل کھیلنا بند کردیں گی۔

کیونکہ چین کو چاروں طرف سے گھیرکر اُس کے عظیم ترین تجارتی منصوبے ون بیلٹ ، ون روڈ کو سبوتاژ کرنے کے لیے از حد ضروری ہے کہ صرف جنوبی ایشیاء ہی نہیں بلکہ وسطی ایشیاء میں بھی جنگ کے شعلوں کو ہوا دے کر پورے ایشیا کو شدید ترین عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔

اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وسطی ایشیاء میں سیاسی چپقلش ، پراکسی وار ، انارکی اور بغاوت کا کھیل آنے والے ایام میں نہ صرف بدستور جاری رہے گا بلکہ اس میں مزید شدت بھی آسکتی ہے۔ سی پیک بھی ون بیلٹ ، ون روڈ منصوبے کا ایک اہم ترین حصہ ہے، لہٰذا وسطی ایشیاء میں رونما ہونے والے معمولی اور غیر معمولی واقعات براہ راست پاکستان کے مستقبل پر بھی اثرانداز ہوں گے۔

یہاں پاکستانی قیادت کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے وہ اپنے ماضی کے سفارتی و دفاعی تعلقات کا سہارا لے کر وسطی ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔اس وقت بین الاقوامی اور علاقائی منظر نامے پر کشیدگی اور دراڑ کی نئی وجوہات نظر آتی ہیں۔

روس یوکرین میں تنازعہ نے کچھ بڑی طاقتوں بشمول امریکا، روس، چین اور یورپی ممالک کے درمیان تقسیم کو بڑھا دیا ہے۔ تمام اشارے یہ ہیں کہ یوکرین ایک طویل تنازعہ بننے جا رہا ہے اور یورپی معیشت اور سیاست پر اس کے اثرات دور رس ہوں گے، اور مستقبل میں طاقت کے توازن کے حوالے سے بہت سے معاملات اس حساب سے ہوں گے۔

یوکرین کے تنازع کا عالمی تیل کی پیداوار اور توانائی کی فراہمی کے ساتھ اندرونی تعلق ہے۔ نہ صرف یہ کہ یورپ کی توانائی کی فراہمی (جس کا زیادہ تر انحصار روسی گیس پر ہے) شدید تناؤ کا شکار ہیں، بلکہ حال ہی میں دو پرانے اسٹرٹیجک اتحادیوں سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بھی دراڑیں سامنے آئی ہیں۔

سعودی عرب نے امریکی اپیل کے باوجود تیل کی پیداوار کم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور مستقبل میں روس کے ساتھ قریبی تعلقات کا اشارہ دے کر امریکا پر دباؤ ڈالا ہے۔ سعودی اقدامات ، خواہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایڈجسٹمنٹ کے خواہاں ہی کیوں نہ ہوں ، عوامی سطح پر ماضی کی کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ سخت ہیں اور عالمی اور علاقائی حرکیات کو بدلنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

موجودہ عالمی اور علاقائی ماحول میں سنگین پیچیدگیوں کے پیشِ نظر ، پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ملکی سیاسی استحکام کے حصول اور اپنے سنگین معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کرے۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر علاقائی اقتصادی تعاون اور روابط کے نقطہ نظر کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر چیلنجز بڑھتے رہیں گے۔آج جن ممالک کے درمیان گہرے یا دوستانہ یا خصوصی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔

وہ دراصل ایک دوسرے پر اقتصادی اور ٹیکنالوجیکل انحصار کے نتیجے میں بنتے ہیں اور اسی سے معاشی سفارتکاری کی اصطلاح نے جنم لیا ہے۔ پاکستان اپنے خطے کا بہت اہم ملک ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہے اور افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت پاکستان کی ہے۔ روس پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا، کیونکہ پوتن امریکا کو کاؤنٹر کرنا چاہتا ہے۔

اب اس کی پالیسیاں زیادہ جارحانہ ہوتی جائیں گی۔ روس بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کسی صورت خراب نہیں کرے گا ، جب کہ دہلی امریکا سے بھی راہ و رسم بڑھا رہا ہے۔پاکستان اور روس کے ایک دوسرے کے ساتھ وسیع تر مشترکہ سیاسی و عسکری مفادات جڑے ہوئے ہیں۔

یوکرین کے مسئلے کی وجہ سے روس کے مغرب سے تعلقات میں بگاڑ چل رہا ہے ،جس کی وجہ سے اسے خطے میں نئے دوستوں کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان کو خطے میں بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت کو روکنے کے لیے نئی بین الاقوامی دوستیاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

دنیا میں قیام امن کے لیے پاکستان نے بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں اور مزید بھی دینے کے لیے تیار ہے ، لیکن اب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سمجھ چکی ہے کہ ہمیں Proactive سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کی سفارت کاری میں پچھلے چند برسوں میں ایک سیاسی پختگی رونما ہوئی ہے۔

روس کے ساتھ حیرت انگیز طور پر چند سالوں میں اتنے قریبی عسکری تعلقات پیدا کرنا ہماری عسکری پالیسی کی کامیابیوں کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ پاکستان ، چین اور روس کا اتحاد اس خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں بے حد مددگار ثابت ہوگا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد سے دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا تھا اور امریکا واحد سپر پاور بن کر ابھرا تھا جس کے باعث ایک خلا پیدا ہوگیا تھا جو آج تک پُر نہیں ہو سکا۔

چین ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور روس بھی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے جب کہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے لیکن یہ تینوں تن تنہا اس عدم توازن کے خلا کو پُر نہیں کر سکتے ، اگرچہ تینوں مل کر کام کریں اور ایک بلاک کی شکل اختیار کر لیں تو یہ خلا پُر ہوسکتا ہے اور یہ خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

مضبوط ، پر امن اور مستحکم وسطی ایشیاء پاکستان کے تابناک مستقبل کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔