- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
ملکی صنعت کو درپیش خطرات اور ڈالر
حکومتی معاشی ٹیم کی یہ پالیسی رہی ہے کہ درآمدات کو محدود کیا جائے جس کے نتیجے میں جس قسم کے نتائج مرتب ہوئے ہیں، اس سے ایک طرف زرمبادلہ پر دباؤ میں کمی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف صنعت و معیشت پر منفی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
یہ عمل اگرچہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لا کر مثبت ہوگا لیکن معیشت کے لیے انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ توازن قائم رکھنے میں ڈالر کا اہم ترین کردار ہے جو اس وقت ملک سے فرار ہو رہا ہے یا پھر کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہے ، لہٰذا ملک میں ڈالر کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے ، لیکن اس شدت کو مزید سنگین سے سنگین تر ملک کے سیاسی حالات نے کردیا ہے۔
ملک میں ایسا زبردست سیاسی عدم استحکام اس سے قبل بھی کئی مواقع پر دیکھنے میں آیا تھا لیکن اس وقت عوام کی اکثریت کا یقین عالمی معیشت کی مضبوطی، پاکستان کے معاشی سمت کی درستگی اور تجوریوں میں یعنی بینکوں میں کم دولت کا ہونا اور دیگر بہت سے امور تھے ، جب سے روس یوکرین جنگ کا آغاز ہوا ہے دنیا بھر کی معیشت بے یقینی کا شکار ہوتے ہوئے کساد بازاری کی جانب بڑھ رہی ہے۔
اس جنگ کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر یورپ ہو رہا ہے جس کے تجارتی مفادات پاکستان سے بھی وابستہ ہیں۔
کچھ اس طرح کہ وہاں کے تاجروں ، ایکسپورٹرز پاکستان کو ملنے والے جی ایس پی پلس سے مستفید ہونے کی خاطر اپنے درآمدی آرڈرز میں قدرے اضافہ کر رہے تھے کہ 2020 میں آنے والے کووڈ19 اور جب اس کے شکنجے سے نکلے تو فروری 2022 میں روس یوکرین جنگ نے یورپی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس کے مثبت نتائج کا حصول مشکل ہونے لگا ہے۔
اس پر مزید اضافہ اس وقت سے ہونا شروع ہوگیا جب سے ملکی سیاسی صورت حال شدید عدم استحکام کا شکار ہونے لگی۔ اب دونوں صوبوں کی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اس منفعیت میں مزید اضافہ ہوا ہے لیکن حکومت کے ایک عمل نے تاجروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے FPCCI اور کراچی چیمبر کا گزشتہ دنوں دورہ کیا۔ تاجروں نے گورنر کے سامنے اپنی شکایات کے انبار لگا دیے جوکہ بالکل درست ہیں کیونکہ ملکی معیشت ملکی صنعت کا پہیہ چلے گا جب ہی بتدریج ملکی معاشی مسائل حل ہوں گے۔
اگرچہ گورنر نے یہ کہا ہے کہ اگلے ہفتے سے ڈالر آنا شروع ہو جائیں گے اور ایل سی کھولنے کا عمل تیز ہو جائے گا۔ بندرگاہ پر ہزاروں کنٹینرز موجود ہیں جو ڈالرز کی عدم دستیابی کے باعث معیشت میں زبردست عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔
اس وقت ڈالر کا انٹر بینک ریٹ 230 روپے تک ہے اور اوپن مارکیٹ میں 240 روپے سے زائد کا ہوچکا ہے۔ دونوں ریٹس کے فرق میں مزید اضافہ ہوگا۔ بشرطیکہ تیزی کے ساتھ ڈالرز آنا شروع ہوگئے اور ایل سی کھولنے کا عمل تیز تر ہونے کی صورت میں ملک بھر کی تجارتی و صنعتی صورتحال میں بھی بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔
اگر ملکی معیشت کا گہرائی میں جا کر معاشی جائزہ لیا جائے تو یہ پون صدی کی نسبت انتہائی تشویش ناک دور ہے ، کیونکہ اس سارے عمل کا آخری نتیجہ ملک میں بے روزگاری پھیل کر شدید مندی پیدا ہونے کے باعث چھوٹے چھوٹے روزگار، یعنی دکاندار تک شدید متاثر ہوں گے اور ان کی آمدن میں کمی عجب رنگ لائے گی۔
اس کی چھوٹی سی مثال لے لیں جس دکان پر دو ملازم کام کرتے تھے ان میں سے ایک کو فارغ کردیا جائے گا۔ لہٰذا تاجروں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر کے سامنے کہا کہ چیمبر کو بند کرکے چابیاں ان کے حوالے کرنے کی بات تک کر ڈالی۔ تاجروں نے کہا کہ ایل سی نہ کھلنے سے ڈیمرج کی مد میں لاکھوں ڈالرز شپنگ کمپنیوں کو ادا کیے جا رہے ہیں۔ امپورٹرز کے لیے کوئی واضح پالیسی ہی مرتب نہیں کی گئی۔
کسی کو پتا نہیں کہ کیا امپورٹ کریں اور کیا نہ کریں؟ اسٹیٹ بینک نے ایل سی کھولنے کے حوالے سے ہیلپ ڈیسک کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت ملکی صنعت جس قسم کی صورت حال سے گزر رہی ہے۔
پون صدی کی تاریخ میں اس قسم کی سنگین صورت حال پہلے دیکھنے کو نہ ملی تھی۔ اس سے قبل 1968 میں ہڑتال ہوگئی فیکٹریوں کو تالے لگ گئے ، لیکن دو چار دن کی بات ہوتی تھی۔ 2009 اور 2010 میں شدید توانائی بحران آیا، فیکٹریاں مالکان نے تین شفٹوں سے دو شفٹیں کر دیں۔
گیس کی جگہ لکڑیاں جلا کر توانائی کی ضرورت پوری کرکے اپنے آرڈرز کی بروقت تکمیل کر دی۔ معاملات بدستور بہتر ہوگئے، حالانکہ توانائی کی قیمتوں میں شدید اضافہ بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ لیکن پھر بھی ملکی ایکسپورٹرز نے حالات کا مقابلہ کیا۔ اس وقت تو حکومت نے ریفنڈ بھی روک رکھے ہیں، شرح سود انتہائی بلند سطح پر ہے، ہر دن نہیں اب ہر ایک لمحہ ان پر بھاری ہو رہا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خوراک ادویہ کھانے کے تیل کی درآمدات کو فوری کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے ، ورنہ کوکنگ آئل اور دالوں کی قیمت اور ادویات کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ بالکل سر پر تیار ہے۔ بعض تاجروں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بھارت سے سستا مال منگوائے۔
راقم کا خیال ہے کہ اس بارے میں بھی اعلیٰ سطح پر فوری طور پر ایسی کمیٹی جس میں تاجر نمایندے زیادہ ہوں تشکیل دے کر 48گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرکے اس کے مطابق عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ بات یہ ہے کہ ڈالر بچانے کی خاطر اپنی دیگر تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے بھارت سے سستا مال منگوانے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل بھی بھارت سے کئی اشیا درآمد کی جاتی رہی ہیں ، لہٰذا ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مناسب فیصلہ کرلینا چاہیے۔ بہرحال حکومت اس بات کو مدنظر رکھے کہ بڑے پیمانے پر ملکی صنعت کے بند ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ لہٰذا ملکی صنعت کو خطرات سے نکالنے کے لیے ہر ممکن طریقے کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔