ٹوٹا ہوا تارا

غلام محی الدین  ہفتہ 21 جنوری 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

’اگر لاہور سے ڈھاکا لا کر فروخت کی جانے والی ایک پنسل کی قیمت 12 پیسے ہو اور کلکتہ سے درآمد کی جانے والی پنسل 8 پیسے میں فروخت ہو تو کلکتہ سے درآمد شدہ 500 پنسلوں پر کتنی بچت ہو گی۔؟‘ یہ چھٹی ساتویں کلاس کے بچوں کے ریاضی کے کورس میں شامل سوالوں جیسا ایک سوال ہے ، اس طرح کے بہت سے سوالات اور اشارے ماضی کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہوا کرتے تھے۔

ویسے تو ہماری قوم کے لیے کوئی بات بھی جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی نہیں ہوتی لیکن اس سے بھی حیران کُن بات ہے کہ 60 کی دہائی میں سابقہ مشرقی پاکستان کے شعبہ تعلیم میں ہندوؤں کا تناسب 40 فیصد کے آس پاس پہنچ چکا تھا، جب کہ ہندوؤں کی آبادی کا تناسب تب 15 اور آج میسر اعداد و شمار کے مطابق 8 فیصد ہے۔

بھارت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کا بیج طالب علموں کے ذہنوں میں بونا تھا لہٰذا سب سے بڑی سرمایہ کاری بھی تعلیم ہی کے شعبے میں کی گئی۔ محکمہ تعلیم میں موجود نظریاتی ہندوؤں نے نصابی کتابوں کے صفحات میں ایسے اشارے کنائے شامل کیے جو بنگالیوں میں پنپتے احساس محرومی کو مہمیز کرتے تھے۔

دوسری طرف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ کی کمی نہ تھی جو ان اشاروں کنایوں کی تفہیم میں ’’علم ودانش‘‘ کے دریا بہا دیا کرتے ہوں گے۔  بابائے قوم محمد علی جناحؒ نے ایک آدھ برس چھوڑ کر جس درسگاہ کا ہر سال دورہ کیا وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھی۔

تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہو جانے کے بعد انھوں نے علی گڑھ کے ساتھ اپنا رشتہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا اور اسی علی گڑھ کی تربیت یافتہ نوجوان قیادت نے تحریک پاکستان کے فیصلہ کُن مرحلے میں ہراول دستے کا کام کیا۔ اب اس بات پر کیا کہیں کہ جب مشرقی پاکستان کی تعلیمی درسگاہوں میں یہ واردات ڈالی جا رہی تھی تو پاکستان کے مقتدر حلقے اور فیصلہ ساز قوتیں کیا کر رہی تھیں۔

ہندو تاجر اور کاروباری طبقہ اپنا محفوظ سرمایہ مشرقی پاکستان کے بینکوں میں نہیں رکھا کرتا تھا بلکہ اس مقصد کے لیے ان کی ترجیح کلکتہ تھی۔ کیونکہ کاروبار اور معیشت پر ہندوؤں کا اثر بہت زیادہ تھا اور وہ تجارتی سرگرمیوں میں بھی بڑے متحرک تھے لہٰذا مشرقی پاکستان کی زرعی اور صنعتی پیداوار کا بڑا حصہ بھارت اسمگل کر دیا جاتا تھا۔

فوج نے جب اس اسمگلنگ کے خلاف آپریشن شروع کیا اور اس کے نتیجے میں معاملات بہتری کی طرف آنے لگے تو ہندو اقلیت کے ہاتھ اس قدر لمبے تھے کہ اس نے وزیراعلیٰ عطاء الرحمن کو فوجی آپریشن رکوانے پر مجبور کر دیا تھا۔

معیشت کسی ریاست کا وہ اہم ترین شعبہ ہوا کرتا ہے جس کی صحت ہی ریاست اور عوام کے باہمی تعلقات کو مضبوط بناتی ہے۔ کمزور معیشت سے پیدا ہونے والی کمزوریاں قوموں کو تقسیم کرنے کا باعث بنا کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں ’’دانشوروں‘‘ کا ایک مخصوص گروہ تاریخ کے ان گُم گشتہ گوشوں کو قوم کے سامنے لانے پر بھی بڑا بے مزہ ہوتا ہے۔ ایسی کسی کوشش کو گڑھے مردے اُکھاڑنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دشمن کے ساتھ اس ٹکراؤ کے رزمیہ میں وہ بنگلہ دیش سے ہمدردی کے پردے میں بھارت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔

یہ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ انسانیت کے آفاقی اصول کی پاسداری میں وہ پاکستان کے بجائے حق کے ساتھ کھڑا ہونا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ بہرحال، 1971 میں دو دہائیوں سے زائد کی شبانہ روز جدوجہد کے بعد بھارت نے خود کو کسی آیندہ جنگ کی صورت میں دو بالکل مخالف سمتوں میں بٹے محاذوں پر لڑنے کی جان لیوا مصیبت سے محفوظ بنا لیا جب کہ ہم مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کے احمقانہ ڈاکٹرائن پر اکتفا کیے رہے۔

ہمارے نزدیک صاحب قلم حضرات کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو تاریخ کے روشن اور تاریک پہلوؤں سے آگاہ رکھیں۔ انھیں اپنے سے پہلے گزر جانے والوں کے کارنامے، ان کی غلطیاں اور سیہ کاریاں بھولنے نہ دیں کیونکہ اسی مشق سے مستقبل کی راہیں روشن ہوا کرتی ہیں۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو دوسری جنگ عظیم میں سوویت روس نازی جرمن یلغار کے خلاف اپنے فیصلہ کن جوابی حملے کا نام آپریشن باگریٹین (Opration Bagration) نہ رکھتا۔ پرنس پیوتر باگریٹین شہنشاہیت کے دور کی روسی اشرافیہ کا حصہ تھا اور اس نے 1812 میں نپولین کی یلغار کے خلاف دادشجاعت دیتے ہوئے موت کو گلے لگایا تھا جب کہ روسی انقلاب اسی اشرافیہ کے خلاف برپا ہوا تھا۔

پاکستان میں نسل نو کو اپنی تاریخ سے آگاہ رکھنے کے کام کو جن لوگوں نے ایک مشن کے طو رپر اختیار کیا اور ساری زندگی اس سے پورے خلوص اور دیانت داری سے جڑے رہے ان میں الطاف حسن قریشی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی زیرادارت شایع ہونے والے ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے ساتھ ہمارا تعلق لڑکپن سے استوار ہو گیا تھا کیونکہ ہمارے بزرگ اس رسالے کو نئی نسل کی تربیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

اسکول کے زمانے ہی سے اردو ڈائجسٹ کا کئی برسوں کا مکمل ریکارڈ گھر پر میسر تھا۔ دیگر بہت سی دلچسپ تحریروں کے ساتھ جنگ ستمبر 1956 کے تاریخی حقائق سے حاصل ہونے والا احساس تفاخر اور سانحہ سقوط ڈھاکا اور اس کے پس پردہ حقائق سے سبق آموز آگاہی کا اہم ترین ذریعہ یہ ڈائجسٹ ہی تھا۔

اب اس حوالے سے جو ایک اور غیرمعمولی کام سامنے آیا ہے وہ سانحہ مشرقی پاکستان سے متعلق ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں شایع ہونے والی تحریروں کو ’مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارہ‘ کے نام سے کتابی صورت میں شایع کر دیا گیا ہے۔

الطاف حسن قریشی درجنوں مرتبہ سابقہ مشرقی پاکستان گئے، وہاں قیام کیا اور زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ شخصیات سے ملاقاتیں کیں، گزرے ماہ و سال کے ساتھ پیدا ہوتی اور پل کر جوان ہوتی بدگمانیوں اور دوریوں کا خود مشاہدہ کیا اور ان کے ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کیا۔ یہ مشرقی پاکستان میں ہماری بدترین ناکامی کی مکمل تاریخ ہے۔

اس میں ایک ایک لفظ لمحہ موجود میں گزرتی واردات کا بیان ہے اور اسی ذہنی کیفیت کا عکاس ہے جو لکھنے والے پر فوری تاثر کے نتیجے میں طاری ہوتی ہے۔ 1408 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 1964 سے لے کر 2000 تک اس موضوع پر اردو ڈائجسٹ میں شایع ہونے والی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے جسے ایقان حسن قریشی نے مرتب کیا ہے۔

یہ کتاب متحدہ پاکستان کے خاتمے کے پس پردہ حقائق اور ہماری عاقبت نااندیشی کا تفصیلی استغاثہ ہے۔ ایسی کتابیں اقوام کے مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔