کیا پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا؟

سالار سلیمان  پير 23 جنوری 2023
ڈیفالٹ کی صورت میں پاکستان کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (فوٹو: فائل)

ڈیفالٹ کی صورت میں پاکستان کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (فوٹو: فائل)

’پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا‘ کی صدائیں اب سے نہیں لگ رہیں بلکہ اپریل 2022 سے لگائی جارہی ہیں۔ کسی کی شدید ترین خواہش ہے کہ چونکہ میرے پاؤں کے نیچے سے قالین کھینچ لیا گیا لہٰذا اب یہ گلشن برباد ہوجائے۔

یہ شخص کبھی ملک پر ہی ایٹم بم گرانے کی بات کرتا ہے تو کبھی پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی بات کرتا ہے۔ نرگسیت کے مارے اس شخص سے کسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مجھے پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، کیوں؟ یہ میں آگے لکھوں گا، لیکن ضمناً عرض ہے کہ اگر کہیں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان کو اس سال ڈیفالٹ کروانا ہے تو پھر حالات کو جان بوجھ کر، کھینچ تان کر، بڑی محنت سے اس جانب لے جایا جائے گا۔ اس کےلیے بیرونی سپورٹ تو ہروقت تیار ہے ہی، اندرونی غداروں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ لیکن، سرِدست، میرا نہیں خیال ہے کہ پاکستان ابھی ڈیفالٹ کرے گا۔

فرض کیجیے کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کا اعلان کردیتا ہے تو کیا ہوگا؟ کیا ہندوستانی افواج ملک میں داخل ہوجائیں گی؟ نہیں۔ کیا امریکا ہمیں ایٹم بم سے اڑا دے گا؟ نہیں۔ تو پھر کیا ہوگا؟ دنیا میں اب تک 146 ممالک ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔ حال ہی میں سری لنکا نے اپنا ڈیفالٹ ڈکلیئر کیا تھا۔ 1940 سے قبل اسپین دس سے زیادہ مرتبہ ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ گزشتہ 20 سال میں روس، گریس، شمالی کوریا، وینزویلا نے اپنا ڈیفالٹ ڈکلیئر کیا اور یہ آج بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔

اگر کوئی ملک ڈیفالٹ کرجائے تو اس کو دوبارہ ٹریک پر آنے میں ڈھائی سے تین سال لگتے ہیں اور ڈیفالٹ کا داغ دھونے میں دس سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ پاکستان پر آج جتنی پابندیاں ہیں اور خدانخواستہ ڈیفالٹ کے بعد جتنی پابندیاں لگ سکتی ہیں، اس سے کئی گنا زائد پابندیاں ایران پر گزشتہ دو دہائیوں سے لگی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود ایران نہ صرف سروائیو کررہا ہے بلکہ اس نے کئی ملکوں کی ناک میں بھی دم کیا ہوا ہے۔ الغرض اگر پاکستان ڈیفالٹ کر بھی گیا تو دنیا کے نقشے پر بہرحال موجود ہوگا۔ اب اندرونی صورتحال کیا ہوگی؟

ملک میں دنگا فساد ہوگا، جو کہ ایک ماہ تک رہ سکتا ہے۔ انتشار کی کیفیت ہوگی جو کہ ایک سال تک رہ سکتی ہے۔ سب سے پہلے تمام دنیا آپ کو قرض دینے سے ہاتھ کھینچ لے گی۔ آپ کی کریڈٹ ریٹنگ خراب ہوجائے گی۔ یہ ممکن ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جن سے آپ نے قرض لیا ہے اور ان کی واپسی کی تاریخیں آچکی ہیں یا گزر چکی ہیں، آپ کے وہ اثاثہ جات خطرے میں چلے جائیں۔

آپ کو ڈیفالٹ سے نکلنے کےلیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے پاس ہی جانا ہوگا، جو آپ کو مہنگے ترین شرح سود پر قرض دیں گے۔ ملک میں مہنگائی کا ناقابل یقین طوفان ہوگا، ڈالر 375 سے زائد کا ہوگا، پٹرول کی قلت ہوگی اور جو ملے گا وہ بھی 350 روپے لیٹر تک ملے گا۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کی قیمت 85 روپے یونٹ سے متجاوز ہوسکتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کریش کرتے ہوئے شاید 18 ہزار پوائنٹس پر آجائے۔ آج کل اسٹاک مارکیٹ 38 سے 40 ہزار پوائنٹس کے بیچ میں ہوتی ہے اور مارکیٹ کا ایک پوائنٹ 25 کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے لیکن نوبت قحط کی نہیں ہوگی۔ ہم کسی وقت میں زرعی ملک تھے۔ پھر بلڈر مافیا نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال بچھایا۔ پوری دنیا میں بڑے شہروں میں ہائی رائز ہوتی ہیں لیکن پنجاب کا بلڈر مافیا ملک کی زمین کھا گیا۔ اس نے ہائی رائز نہیں بنائیں بلکہ جو ہائی رائز بناتا ہے، اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ ڈیفالٹ کی صورت میں پاکستان کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بھی کریش کرے گی۔ زراعت کا بحران پیدا ہوگا۔

ایک اندازہ ہے کہ اگر ابھی بھی اجناس کی ایل سی بروقت نہیں کھلی تو آنے والے رمضان میں عام سی دال ہمیں 900 روپے کلو تک مل سکتی ہے کیونکہ ہم اپنی ضرورت کی صرف 30 فیصد دال ملک میں پیدا کرتے ہیں باقی 70 فیصد سے زائد ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ملک سے بجلی 18 گھنٹے کےلیے غائب ہوگی۔ ملک کی امپورٹس فارغ ہوجائیں گی اور ایکپسورٹس کےلیے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ تاہم، اس کے بعد بھی پاکستان سروائیو کرجائے گا۔ یہاں کوئی قیامت کا منظر نہیں ہوگا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی سروائیو کیا تھا۔ پاکستان نے 71 کے سانحے کے بعد بھی سروائیو کیا تھا اور پاکستان نے زرداری کے دور کو بھی سروائیو کیا تھا۔ آپ زرداری کے دور کو منی ڈیفالٹ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔

خاکم بدہن، کچھ لوگوں کی، کچھ حلقوں کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ان کی سیاست اور انا کا مسئلہ ہے۔ اگر ملک ڈیفالٹ نہ ہوا تو ان کو دوبارہ چانس نہیں ملے گا۔ ان کے پاس ایک ہی منجن ہے جو وہ کئی بار بیچ چکے ہیں۔ ان کی جو سپورٹ تھی وہ بظاہر ختم ہوچکی ہے اور اب ملک کا ڈیفالٹ ہی ان کی سیاست کو بچائے گا۔ وہ کبھی آئین کے منافی اقدامات کی بات کرتے ہیں، کبھی وہ ذاتی انا کی تسکین کےلیے جلدی الیکشن کی بات کرتے ہیں اور اس کےلیے بھیانک منظرکشی سے اور سیاسی بدمعاشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ وہی جماعت ہے جس کے معاشی دماغ نے آئی ایم ایف کو ڈاج کرنے کی پوری اسکیم لڑائی تھی کہ پاکستان کو قرض کی قسط نہ ملے اور اس کی آڈیو پھر مارکیٹ میں آگئی تھی۔ تب بھی ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح سے پاکستان کو ڈیفالٹ کروا دیا جائے۔

کیا کوئی ان سے پوچھے گا کہ جب ان کا ہی اسد عمر آئی ایم ایف کی شرائط پڑھ کر ڈیل سے انکار کر آیا تھا تو بھی اس سے زیادہ گھٹیا شرائط پر آئی ایم ایف سے کیوں ڈیل کی گئی؟ کیا کوئی ان سے پوچھے گا کہ آپ کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں 25 ہزار ارب قرض کیوں لیا گیا؟ کیسے پاکستان کا قرض 27 ہزار سے 52 ہزار ارب ہوا؟ کون سے میگا پراجیکٹس شروع ہوئے؟ پیسہ کہاں لگا؟

ایمان داری سے بتائیے کہ کیا ملکی صورتحال ان دس ماہ میں ہی خراب ہوئی ہے؟ کیا اس سے پہلے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا؟ اس کا جواب جاننے کےلیے گزشتہ حکومت کے ترجمان سونے کے اسمگلروں کے چینل کی ویب سائٹ کے آرکائیو پڑھ لیجیے، کلیئر ہوجائے گا۔ اس کا جواب ویسے یہی ہے کہ جی نہیں، تو پھر اس کا مطلب ہے کہ پچھلے والے زیادہ ذمے دار ہیں کہ جو آج بھی اپنے ہرکاروں کی مدد سے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ جو بوریاں بھر کر پیسہ ملک سے نکال رہے ہیں۔

اللہ نہ کرے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔ اگرچہ دشمنوں کی پوری تیاری ہے اور انہیں ملک میں موجود غداروں کی بھی پوری پشت پناہی حاصل ہے لیکن نجانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ پھر سے تبدیل ہوگا۔ کوئیک مارچ کے امکانات کو نظرانداز تو نہیں کیا جاسکتا لیکن دو باتیں مختلف حلقوں کی جانب سے سننے کو مل رہی ہیں۔ ایک یہ کہ قومی حکومت قائم کردی جائے اور اس کو پھر تین سال دیے جائیں۔ اس کے بعد مردم شماری بھی کروائی جائے اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔

ایک آپشن یہ بھی ہے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائے اور ان سے بھی قومی حکومت والا کام لیا جائے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ فروری کے اوائل میں صورتحال کلیئر ہوچکی ہوگی کہ پاکستان میں اگلا سیٹ اپ کیا ہوگا۔ موجودہ حکومت کے پاس ڈالرز کا بحران حل کرنے کےلیے صرف پندرہ سے بیس دن ہیں۔ اس میں اگر ورلڈ بینک یا کسی اور طرف سے کوئی مدد آگئی تو یہ سیٹ اپ پھر اگلے انتخابات تک چلے گا، دوسری صورت میں حالات مزید سخت بھی ہوسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔