تازہ ہیں ابھی یاد میں…

ڈاکٹر محمد حامد زمان  اتوار 22 جنوری 2023

جنوبی امریکا کے ملک چلی کے دارالحکومت سان ٹیاگو کے وسط میں ایک عجائب گھر ہے۔ یہاں آنے والے چاہے ملکی باشندے ہوں یا غیر ملکی سیاح، سبھی کا داخلہ مفت ہے۔ اس عجائب گھر میں آپ کو کسی قدیم تہذیب کے انمول نوادرات دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔

یہاں مصوری کے شاہکار ہیں نہ ہی زمین سے نکالے گئے ماضی کے صنم۔ یہ عجائب گھر اس کے برعکس ہمیں اپنے ماضی کے آئینے میں اپنا ہی عکس دکھانے کے لیے تعمیر ہوا ہے۔ عجائب گھر کا نام بھی اسی نسبت سے ’’میوزیم آف میمری اینڈ ہیومن رائٹس‘‘ یعنی ’’عجائب گھر برائے یاد ماضی و انسانی حقوق‘‘ ہے۔

اس عجائب گھر کا موضوع درحقیقت چلی کا وہ دور آمریت ہے جو 11 ستمبر 1973 کو شروع ہوا اور کم و بیش پندہ برس تک پوری شدت سے جاری رہا۔ ِچلی کے آمر آگسٹو پنوشے نے امریکا اور دیگر بیرونی طاقتوں کی مدد سے نہ صرف اپنے وطن کی شمع جمہوریت کو گل کیا بلکہ ان گنت لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔وہ بے گناہ بھی جو اس آمریت کے دشمن تھے، اور وہ بے قصور بھی جنھیں آمر کے ہم نوائوں نے اپنے راستے کی رکائوٹ تصور کیا۔

سرد جنگ کی سیاست کی آڑ میں امریکا اور اس کے حلیف چشم پوشی کرتے رہے اور پنوشے اور ان کے درباری ادباء، شعراء، فنکار، محقق اور نہ جانے کتنے اہلِ علم و ہنر کا صفایا کرتے رہے۔ان پندرہ برسوں میں انسانی حقوق کے پامال کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں، مگر جیسا کہ قانونِ قدرت ہے کہ باطل کو ایک روز مٹ جانا ہے، ِچلی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اک روز تعفن کا طلسم ٹوٹا اور حریت کی ہوا کا پہلا جھونکا آیا اور پھر یہ ہوا تیز ہوتی چلی گئی۔

1989میں ملک میں جمہوریت بحال ہوئی۔شہری جب شب ظلمت سے بیدار ہوئے تو کسی نے اپنے زخموں کا مداوا الفاظ کی اکسیر میں ڈھونڈا تو کسی نے دوسروں کی داد رسی فلاحِ عامہ کی کاوشوں سے کی۔ مگر کچھ گھائو ایسے تھے کہ ان کی اکسیر کسی ایک فرد یا طبقے کی دسترس میں نہ تھی۔

اس کا مرہم تو معاشرے کے پاس بحیثیت مجموعی تھا۔ اس مرہم کے ان گنت حصے ان یادوں میں مضمر تھے جو مزدور، طالب ِ علم، ہنر مند، سیاست دان، کھلاڑی، فنکار،صحافی اور ان گنت شہری اپنے احساسات کے اندر چھپائے بیٹھے تھے۔ اب وہ وقت آ چلا تھا کہ سبھی لوگ اس کام میں شریک ہوتے۔ ضروری تھا کہ اس مجموعی مرہم کا جو حصہ جس کے پاس محفوظ تھا، وہ اسے لے آتا۔ یہ عجائب گھراسی کاوش کی ایک کڑی ہے۔

سان ٹیاگو کا یہ عجائب گھر ایک زندہ عجائب گھر ہے۔اس میں ماضی بھی ہے اور حال بھی۔شدت غم بھی ہے اور دلیل صبح روشن بھی۔ اس میں 1973کے اس روز اور ان لمحات کی تصاویر اور وڈیو بھی موجود ہیں جس دن چلی کی عسکری قیادت نے بندوقوں، ٹینکوں اور شعلہ اگلتے ہوائی جہازوں کے بل بوتے پر عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ اس میں ان لوگوں کے انٹرویو بھی شامل ہیں جنھوں نے ملک کے اندر اور بیرون ملک چھپ کر پناہ لی، مگر انصاف کی ’’لو ‘‘کو زندہ رکھا۔

اس میں وہ خفیہ دستاویزات بھی رونما کی گئی ہیں جو پنوشے اور ان کے ملکی اور غیر ملکی احباب کا اعمال نامہ ہیں۔میرے نزدیک اس بھیانک اعمال نامے کے لیے سرکاری دستاویزات شاید وہ اثر نہ پیدا کر سکیں جو ہاتھ سے لکھے ان خطوط میں نظر آتی ہے جو ننھے بچوں نے اپنے ان والدین کو لکھے جو ان کے خیال میں کسی قید خانے میں مقید تھے، مگر وہ سرپرست قید حیات و بند سے کب کے ماورا ہو چکے تھے۔

اس عجائب گھر کی اصل روح ان تصاویر میں پوشیدہ ہے جو ایک مرکزی دیوار پر چسپاں ہیں، یہ دیوار کئی منزل بلند ہے اور ہر سال وسیع تر ہو جاتی ہے، وہ ماں باپ، بہن بھائی، بچے، احباب اور عشاق جو خوف اور غم سے ایک عرصے تک خاموش رہے، اس عجائب گھر میں اپنے گمشدہ پیاروں کی تصاویر کو شامل کر کے نہ صرف اپنوں کی یاد کو زندہ کیے ہوئے ہیں،بلکہ دوسروں کا غم بانٹنے میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں۔ہر برس نئی تصاویر کا اک ذخیرہ عجائب گھر کے منتظمین کو ملک بھر سے موصول ہوتاہے۔

کہا جاتا ہے کہ یاد ماضی عذاب ہے، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یادماضی کو زندہ رکھنا ضروری ہو جاتاہے، تاکہ مستقبل کو جہنم بننے سے بچایا جا سکے۔میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اپنوں کی تصویر اس صف میں لگانا جہاں صرف بچھڑ جانے والے ہوں،کس قدر مشکل ہوگا، مگر چلی کے عوام نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تصاویر سے مزین غم کی یہ فصیل اس لیے اشد ضروری ہے تاکہ مستقبل کے پنوشے کو انصاف اور انسانی حقوق پر ڈاکا ڈالنے سے روک سکے۔

میں کافی دیر اس دیوار کے سامنے کھڑا رہا۔ میں کسی بھی نام سے واقف نہ تھا، مگر نہ جانے کیوں مجھے دیوار پر چسپاں سارے چہرے اپنوں کے لگے۔ یہ دسمبر کے دن تھے۔عجائب گھر کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے مجھے بارہا اکاون برس پہلے کے دسمبر کا وقت یاد آگیا۔ یوں لگا کہ یہ صورتیں 1971 میں بچھڑ جانے والوں کی ہیں۔

دل میں یہ امید اٹھی کہ کاش ہم بھی ایک ایسا عجائب گھر بنائیں جہاں ہم اپنے ماضی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا اعمال نامہ وصول کریں۔ وقت نے ہمارے ماضی اور ہمارے دلوں کے آئینے پر گرد کی کئی تہیں جما دی ہیں۔ ہمیں ضرورت ایسے عجائب گھر کی ہے کہ جہاں یاد کے جھونکے اس گرد کی تہہ کو صاف کر دیں اور اس آئینے میں ہمیں اپنے ماضی کی صورت کے حقیقی خدوخال دیکھنے کا موقع میسر آجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔