اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر!

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 22 جنوری 2023
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں متوسط طبقہ کے لیے مہنگائی کے بعد اب تعلیم کا حصول بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

پاکستانی طلبہ کی اکثریت جنھیں سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر تھے، اب پہلے جیسے نہیں رہے اور حالات مزید تنزلی کی طرف جار ہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک عرصے سے کوئی واضح اور مستقل تعلیمی پالیسی نظر نہیں آ رہی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامے کے تبدیل ہوتے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اہم عہدیدار بھی تبدیل ہوتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی تعلیمی پالیسیاں بھی تبدیل ہونے لگتی ہیں۔

حال ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سابق وزیراعظم کی قریبی عزیزہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اہم ترین عہدے سے فارغ۔ ظاہر ہے جس ملک میں تعلیمی پالیسیاں بھی کسی کرکٹ میچ کی صورتحال کی طرح تبدیل ہوں وہاں تعلیمی معیار کیونکر عالمی سطح کا ہو سکتا ہے؟

غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جب ملکی تعلیمی پالیسیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو انھیں اس ملک اور اس کے طلبہ کی ضروریات اور حالات کا قطعی علم اور احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ تعلیمی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت متعلقہ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘سے مشورہ لیتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دو دہائیوں سے یہی طے نہ ہو سکا کہ جامعات میں آنرز اور ماسٹر کی ڈگریاں ہی اس ملک کے طلبہ کے مستقبل کا ضامن ہیں یا ’ بی ایس‘ کی؟

یہی کچھ حال کالجز اور پرائیویٹ اداروں کی ڈگریوں کے معاملات کا ہے ،بات صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ حساس ترین اور اہم بات یہ ہے کہ اب سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کسی صنعتی ادارے یا فیکٹری کی طرح چلانے کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کو پروڈکشن تیار کرنے یعنی مال کمانے والے ادارے کے طور پر چلانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے اور جامعات کی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جامعات کا کام صرف پیسہ کمانا ہے، فنڈز طلب کرنا نہیں۔

با الفاظ دیگر حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی فنڈز فراہم کرنے کے بجائے ہاتھ کھڑے کر لیے گئے ہیں کہ جامعات کے اخراجات کے لیے حکومت کی طرف مت دیکھو، خود بندوبست کرو۔ سوال یہ ہے کہ جامعات تعلیم فراہم کرنے کا ادارہ ہوتی ہیں یا کسی فیکٹری کی طرح مال تیار کرکے، اسے فروخت کرکے پیسہ کماتی ہیں؟

حالیہ ایک خبر کے مطابق سندھ کے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے اجلاس میں جامعات سے کہا گیا کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور ریسورس جنریشن کے دیگر ذرایع تلاش کیے جائیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جامعات میں ملازمین کی ضرورت سے زائد تعداد جامعات کے وسائل پر بوجھ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں تقرریاں سیاسی دباؤ کے تحت ہوتی ہیں جو ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے تو اس کو ختم کرنا بھی حکومت کی ہی ذمے داری بنتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ آیندہ تقرریاں بغیر پنشن کی بنیاد پر دی جائیں۔

سوال یہ ہے کہ جب آپ ایک استاد کو گھر چلانے کے لیے مناسب مشاہرہ اور مراعات جو دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی دی جاتی ہیں، اس سے محروم کردیں گے تو اس سے ایک اچھی کارکردگی کی توقع کیسے رکھیں گے؟

کیا ایک استاد مہنگائی کے اس دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر جگہوں پر کام نہیں کرے گا؟ ایسے میں وہ طلبہ کوزیادہ وقت نہیں دے سکے گا اور نہ توجہ۔ اس ملک میں ایک طبقے کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دی جائیں اور ایک استاد جو پوری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے اس سے پنشن کا حق بھی چھین لیا جائے؟

بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بھی جامعات کے اساتذہ کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو قانونی طور پر ان کا حق ہے، مثلاًبیشتر جامعات میں پنشن بند ہے، کچھ میں تنخواہیں پوری نہیں مل رہی ہیں اور اساتذہ پروموشن کے بغیر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی ہی میں تین اساتذہ بغیر پروموشن کے ریٹائر ہو گئے، پروموشن ان کا حق تھا وہ اس معیار پر بھی پورے اتر تے تھے اور عدالت کی طرف سے اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، تب بھی ان اساتذہ کو پروموشن جو ان کا حق تھا نہیں مل سکااور اب پنشن بھی نہیں مل رہی۔

اب پنشن کے بغیر تقرری کی بات کی جا رہی ہے جب کہ جامعات کے اساتذہ کو تو اس وقت بھی پروموشن کا حق حاصل نہیں کیونکہ عرف عام میں ہم جب پروموشن کا لفظ استعمال کرتے ہیں توعملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر جامعہ نئی تقرری کا اشتہار دیتی ہے تو یہاں پہلے سے مستقل بنیادوں پر کام کرنے والا ایک استاد دوبارہ سے ایک نئے امیدوار کی حیثیت سے درخواست جمع کرائے اور اس تمام مراحل سے گزرے جس سے ایک باہر سے آکر درخواست دینے والا امیدوار گزرے۔

گویا جامعات کا کوئی استاد اگر زندگی میں بھی نئی آسامی (پوسٹ یا عہدے) کے لیے درخواست جمع نہیں کرائے گا تو ایسے ہی ریٹائر ہوجائے گا، اس کا کوئی پروموشن نہیں ہوگا خواہ اس کی بیس، پچیس سال کی سروس ہو۔ دوسری طرف ایک عام سرکاری ملازم کو پانچ سال بعد سنیارٹی کے پرموشن بھی ملتا ہے اور آفیسر گریڈ کے ملازم کو گاڑی، ڈرائیور بھی جب کہ جامعہ کے گریڈ انیس اور بیس کے پروفیسر کو نہیں ملتا۔

یہ صورتحال اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک کے مڈل کلاس طبقے کو ہو رہا ہے۔ جامعات ان حالات میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مسلسل فیسوں میں اضافہ کر رہی ہیں جو ظاہر ہے کہ مڈل کلاس طبقے کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔

پہلے ہی اس ملک میں سرکاری اسکولوں کی تباہی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے وہ خاندان جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے، ان کی ایک بڑی تعداد مدرسوں کا رخ کر رہی ہے جہاں وہ مڈل یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ انھیں کوئی اچھا ذریعہ معاش مل سکے۔

اب بہت سے دینی مدارس نے بی بی اے، ایم بی اے اور میڈیا سائنسز میں بھی ڈگری کورسسز شروع کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کی ایک تعداد اس طرف بھی جا رہی ہے، لیکن ایسے اداروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے چنانچہ اگر ریاست کی طرف سے تعلیمی معاملات اور پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مڈل کلاس پر آیندہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہوجائیں گے جو ملکی ترقی اور مستقبل کے لیے بھی ایک خطرناک مرحلہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔