زباں فہمی نمبر 171؛ سرقہ، توارُد، چربہ اور استفادہ، (حصہ دُوَم)

سہیل احمد صدیقی  اتوار 22 جنوری 2023
زباں فہمی 171 ، از سہیل احمد صدیقی فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

زباں فہمی 171 ، از سہیل احمد صدیقی فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

 کراچی: اردو کے مشہور شاعرکنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔجب دہلی کے مجسڑیٹ کے عہدے پرفائز تھے تو اُن کی عدالت میں ایک نوجوان کو پیش کیا گیا جس پر چوری کا الزام تھا۔ بیدی صاحب نے نوجوان کی شکل دیکھ کر کہا کہ ”میں اس ملزَم کو ذاتی طور پرجانتا ہوں، اس کی ہتھکڑیاں کھول دو۔یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اس کے بس کا روگ نہیں“۔

اردو کے مشاہیر ِ سخن کی کثیر تعداد نے علانیہ (یہ اعلانیہ نہیں) یا پوشیدہ طور پر فارسی کے استاد شعراء سے اکتساب کیا، کہیں محض خیال کا استفادہ، کہیں ترجمہ کرتے ہوئے چربہ تو کہیں پورا پورا مضمون مع لوازم اُٹھا کر، اپنا طبع زاد شعر بتایا۔ہندوستانی زبان وتہذیب میں فارسی کا عمل دخل، بڑے پیمانے پراُس وقت شرو ع ہوا، جب مغل تاجدار نصیرالدین ہمایوں کے ایرانی شاہ طہماسپ صفوی کی کُمک سے تاج وتخت دوبارہ حاصل کرنے کے بعد، ایران اور وسطِ ایشیا کے مختلف مقامات سے اہل علم وہنر کا گویا سیلاب یہاں اُمڈ آیا۔

شاہجہاں کے بیٹوں کی خانہ جنگی نے گویا مغل اقتدارکے زوال کی بنیاد رکھی اور اُسی دور میں ہندوستانی فارسی اور ایرانی فارسی ایک دوسرے سے الگ اور قدرے مقابل ہوگئی۔ایسے میں اورنگزیب عالمگیر کا عہد شروع ہوا تو مآ ثرعالمگیری کے اقتباس کی رُو سے نامور فارسی سخنور صائبؔ تبریزی(عرف صائبؔ اصفہانی: 1592ء بمقام تبریز۔1676ء بمقام اصفہان) کا دیوان،مخلص خان بخشی المُلک کے توسط سے دربار میں پہنچا اور انھوں نے اس کے پند ونصائح پر مبنی کلام کو پسندفرمایا تو اُسی دن سے صائبؔ کی تقلید کاسلسلہ چل نکلا۔ یہ صائبؔ ہی تھا جس نے شاہجہاں کے دربار تک رسائی حاصل کی اور سبکِ ہندی (ہندوستانی طرزِ فارسی شعرگوئی)میں سَرخیل قرارپایا۔

کابل وکشمیر کی سیاحت کرنے والے اس منفرد شاعر کوایرانی شاہ عباس صفوی نے اپنا ”مَلِک ُالشُعَراء“ (شاعروں کا سردار:The Poet Laureate) قراردیا تھا۔
صائبؔ کی تقلید میں سب سے پہلے، بڑا نام میرؔ کا ملتاہے۔صائب ؔ کا شعر اور پھر اس کا اردو رُوپ، زبان ِمیرؔ سے:

؎ محض حرف است کہ اُو را دہنی (دہنے) ساختہ اَند
درمیاں نیست دہانی (دہانے)، سخنی (سخنے)ساختہ اَند
؎ سچ پوچھو تو کب ہے گا اُس کا سا دَہن غنچہ

تسکیں کے لیے ہم نے اِک بات بنالی ہے

صائبؔ نے کہا: ؎ خراب اَز گردشِ چشم ِ تو،شُد کارِمن اے ساقی
بگیر اَز دستِ من ایں جام کہ اَز خویشتن رفتم
اس کا اردو میں عمدہ منظوم ترجمہ (یا چربہ)سوداؔ نے کیا:
؎ کیفیت ِ چشم اُس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیجیوکہ چلا مَیں
صائبؔ کا شعر ہے: باکدا میں آبرو دَرکعبہ آرَم رُوئے خویش
مَن کہ سرجوشِ حیاتم، صَرف دَرِ بتخانہ شُد
اسے غالبؔ نے یوں اردوکاجامہ پہنایا:
کعبے کس مُنھ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
صائبؔ نے کہا تھا: زِ نُہ سپہر گزشتند گرم رفتاراں
تو سُست عزم، ہماں دَر شُمارِفرسنگی (فرسنگے)
یہی مضمون خواجہ حالیؔ نے یوں نظم کیا:
یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محوِ نالہئ جرسِ کارواں رہے
صائبؔ کا شعرہے: اَز آں خورشید بَر گردِ جہانِ سرگشتہ می گردَد
کہ بَر فتراک صاحب دولتی (دولتے) بندَد،سرخودرا
علامہ اقبالؔ نے اُن کے مصرع ثانی پر گِرہ لگائی کہ ع عجب کیا گر مَہ و پَروِیں،مِرے نخچیر ہوجائیں
اقبالؔ کے ایک فارسی شعر میں صائبؔ سے استفادے کی یہ صورت ہے:
ہماں بہتر کہ لیلیٰ دَربیاباں جلوہ گر باشد
ندارَد تنگنائے شہرِ تابِ حُسنِ صحرائی

صائبؔ کے کلام کا بڑا حصہ،ضرب المثل کا درجہ رکھتاہے۔نثر میں ابوالکلام آزادؔ نے ”غبارِ خاطر“ اور ”کاروانِ خیال“ میں صائبؔ سے استفادہ کیا۔فارسی کے اس عظیم سخنور کے منتخب اشعار کا اردو میں ترجمہ آغا شاعر ؔ قِزِل باش دہلوی نے اور چندغزلیات کا منظوم ترجمہ، شمیم ؔ عثمانی نے کیا۔شعر ِصائبؔ مع ترجمہ شاعرؔ ملاحظہ فرمائیں:

کفر ودیں را پردہ دارِ جلوہ ئ معشوق داں
گاہ دَرِ بیت الحرام و گاہ دَرِ بُتخانہ باش!
٭
کفرودیں کو پردہ دارِ جلوہ ئ معشوق جان!
کعبے میں جا اور خاکِ دَر بُتخانہ بن!

غالبؔ کے تلامذہ اور مداحین میں خطہ بنگال کے ممتاز شعراء بھی شامل تھے۔اُن کے کلام کے رنگ میں کہا گیا اردو کلام اور اُن کے کلام کے بنگلہ تراجم نے اُن کی اس خطے میں شہرت ومقبولیت میں خوب اضافہ کیا۔اردو اور فارسی دبستان بنگال کے سرپرست، خواجگان ِڈھاکا کے نمایندگان، خواجہ حیدر جان شائق ؔ اور خواجہ عبدالغفار اخترؔ نے میرزا نوشہؔ سے بذریعہ خط کتابت، اصلاح لی۔(فارسی میں غالبؔ سے،اور اُردومیں حافظ اکرام احمد ضیغمؔسے اصلاح یافتہ)

اخترؔ کا یہ شعر تو زباں زَدِ عام ہوا:
دادغالبؔ بھی تجھے دیں گے زباں دانی کی
لے کے اخترؔ جو یہ دلّی میں غزل جائے گا

خواجہ حیدر جان شائقؔ کو غالبؔ نے ”طوطی ئ بنگالہ“ کا خطاب عطا کیا۔ان استاد شاگرد کے مابین ہونے والی خط کتابت کو ”اِنشائے شائقؔ“ کے نام سے مرتب کیا گیا تھا۔نمونہ کلام:

اُسی نے کیا مجھ کو رسوائے عالم
کہ جس نے تجھے عالَم آرا بنایا

جس کی ٹھوکر سے جی اُٹھے مُردے
اُس کی رفتار سے ہمیں مارا

ان کے علاوہ خواجہ کوکبؔ، منشی وارث علی جگرؔ اور سید علی حسین عاشقؔ کے غالبؔ سے براہ راست رابطے کا ذکر ملتاہے۔اُسی عہد کے نامور شاعر عبدالغفور نسّاخؔ کے غالبؔ سے تعلق خاطر کا معاملہ بھی بہت مشہور ہے جنھوں نے اپنا مجموعہ کلام میرزا کو بھیجا تو اُنھوں نے خوب داد سے نوازا۔معاصرِ غالبؔ،میرزا جان طپشؔ دہلوی (ساکن ڈھاکا) کے کلام میں رنگِ غالبؔ کا پرتو دیکھیے:

میں تو اُس کی یاد میں پھِرتا ہوں گھبرایا ہوا
لوگ کہتے ہیں پَری کا اُس کو ہے سایہ ہوا
اور یہ بھی: اور سب کچھ جہاں میں ملتا ہے
لیکن ایک آشنا نہیں ملتا
یہ ساری مثالیں زیادہ سے زیادہ اکتساب اوراستفادے کے ضمن میں آتی ہیں، سرقے کے نہیں!

استاد ذوقؔ کے ایک شاگرد، اپنے وقت کے نامورصوفی،عالم اور فارسی واردوکے مستند شاعر، حضرت مذاقؔبدایونی(1819ء تا 1894ء) کے انتخاب کلام کا سرسری مطالعہ کریں تو ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن کا خیال یا مضمون اُن کے کسی ہم عصر یا اُن کے مابعد مشہور ہونے والے کسی شاعر کے یہاں موجودہو۔بات کی بات ہے کہ ان شاعر کو غالبؔ سمیت تمام بزرگ معاصرین نے بھرپور خراج تحسین پیش کیا (اورضمنی نکتہ یہ ہے کہ غالبؔ نے اپنے شاگرد مفتی سید احمد خاں دہلوی کے نام فارسی مکتوب میں مذاقؔ کی تعریف کرتے ہوئے، ذوقؔ کو ’سلطان الشعراء‘ کہا ہے)۔مذاقؔ کا یہ شعر دیکھیے:

اپنے مرنے پرمجھے افسوس آتا ہے مذاقؔ
جب وہ آتے ہیں مِری تُربَت پہ پچھتائے ہوئے

اور اَب اُنھی کے ’استادبھائی‘، نامور شاعر داغؔ(1831ء تا 1905ء) ؔ کا وہ مشہور شعر یاد کیجئے:
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اَب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

ہوسکتا ہے کہ یہاں توارُد ہوگیا ہو،کسی اور شہادت کی غیرموجودگی میں، داغ ؔ جیسے قادرالکلام سخنورپر الزام لگانا مناسب نہیں، گو اُن سے بھی بہت پہلے تقریبا تمام قابل ذکر اساتذہ سخن پر یہ الزام بار بار لگ چکا ہے۔(لطف کی بات یہ ہے کہ یہ مثال کسی بھی ایسی کتاب میں شامل نہیں جس کا موضوع زیر بحث سے براہ راست تعلق ہو،یہ خاکسارنے اپنے مطالعے کے دوران میں، دیکھی تو یہاں پیش کردی)۔

داغؔ دہلوی کے تلمیذ ِ رشید، خواجہ بیداربخت بیدارؔ (ساکن ڈھاکا: 7مارچ 1884ء تا جون 1946ء) کا شعر دیکھیے اور پھر یاد کیجئے حکیم مومن خان مومنؔ(1800ء تا 1852ء) کو:

بُت پرستی میں بیدار ؔ کٹی ساری عمر
لوگ کیا دیکھ کے کہتے ہیں مسلماں مجھ کو
مومنؔ: عمرساری تو کٹی عشق ِ بُتاں میں مومنؔ
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
یہاں براہ راست توارُد کا رَنگ، سرقہ معلوم ہورہا ہے۔
رہی بات محض مماثلت کی تو ہمارے یہاں بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:
ا)۔ ع رہے بہار ِ چمن ہوکے جس چمن میں رہے (حسرتؔ موہانی)
ع تُو اے بہار ِ گریزاں، کسی چمن میں رہے (مجروح سلطان پوری)
ع تم اپنے گھر کے چمن میں بہاربن کے رہو (اخترؔ شیرانی)
ع کسی چمن میں رہو تم، بہار بن کے رہو (حمایت علی شاعرؔ)

”اسی طرح اگر مزید تلاش کی گئی تو اور بہت سے شعراء کے پاس، اس قسم کی مماثلتیں مل جائیں گی۔یہی حال خیال کی مطابقت کا ہے۔میرؔ

ومصحفیؔ اورمصحقی و حسرت ؔ موہانی کو ایک ساتھ پڑھیے۔حافظؔ، فیض ؔ اور سوداؔ کے دیوان قریب قریب رکھ کر مطالعہ کیجئے۔نظیرؔ اکبرآبادی، انیسؔ اور خیامؔ و نظیریؔ کے ساتھ جوشؔ کو پڑھیے۔نِتشے (اس نام میں ’ط‘ لگانا غلط ہے، جرمن میں یہ حرف نہیں ہوتا)، برگساں، ہیگل،مولانا رومی اور امام غزالی کے بعد علامہ اقبال کا مطالعہ کیجئے……………………………سب میں آپ کو خیال اور اندازِبیان کا اکتساب نظر آئے گا۔فکر کی بازگشت اور اکثر الفاظ کی یکسانیت بھی مل جائے گی۔

ظاہر ہے کہ اس کی وجہ کچھ مشترک سماجی عوامل، کچھ مشترک تہذیبی اقدار اور شعری وادبی اصناف کی کچھ مشترک ہئیتی خصوصیات ہیں…الخ (”سلیم کے جواب میں“ از حمایت علی شاعرؔ، مطبوعہ ’نگار‘، 8ستمبر 1963ء، مشمولہ ’عکس وشاعر‘ و ”احوال واقعی“)۔ہمارے عہد کے دوبزرگ معاصرین محترم حمایت علی شاعر ؔ اور محترم محسن ؔ بھوپالی کے مابین ہونے والی اس ادبی ولسانی مناقشے کے حوالے سے بہت زبردست تحقیقی مواد ”احوال واقعی“ (مرتبہ مرزا سلیم بیگ)میں جمع ہواجو مجھے اول الذکر کی عنایت سے موصول ہوا، ان دونوں سے مجھے تعلق خاطر رہا اور دونوں ہی مجھ سے شفقت فرماتے تھے۔

(ضمنی نکتہ عرض کروں کہ علامہ اقبال کے مغربی مشاہیر خصوصا نِتشے سے اکتساب کا موضوع بہت بڑا ہے۔سرِ دست کسی بزرگ کی تحریر نظر سے گزری تو دیکھا کہ انھوں نے، علامہ کے، افکارِ نتشے سے چربہ اُٹھانے کا الزام،دلیل کے ساتھ، رَدّ کردیا ہے۔شایدبشرط فرصت وعافیت، اس موضوع پر کبھی خامہ فرسائی کرسکوں)۔

موضوع سے متعلق بعض کتب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یاروں نے اس بارے میں کسی حجت میں پڑے بغیر ہی پورے پورے دیوان اٹھاکر ایک جملے میں فیصلہ صادرکردیا کہ فُلاں نے فُلاں کا شعر چُرالیا ہے۔چلتے چلتے ایک لطیفہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔کسی صاحب نے اپنی کچی پکی معلومات کے سبب، رابندرناتھ ٹیگورکی ’گیتانجلی‘ میں سرقہ دریافت کرنے کا دعویٰ کردیا۔فرمایاکہ ساراکاسارا، سیدنا علی بن ابوطالب (خدا اُن سے راضی ہوا)کے نصائح کا بنگلہ میں ترجمہ ہے۔خاکسارنے اس مشہور شاہکارکے اردو ترجمے (از قلم فراقؔ گورکھ پوری) اور انگریزی ترجمے [Gitanjali by Rabindranath Tagore, translated by W.B.Yeats:1912]کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد، اقبال اور ٹیگور کے موضوع پر جامعہ ڈھاکاکے تحقیقی جرنل میں شامل مقالہ دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ ممکن ہے کہ برہمو سماج کے مخصوص عقیدے کی پیروی اور اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے اکتساب کے سبب، کلام ٹیگورمیں اسلامی رنگ نظر آتاہو، مگر سرقے کا ایسا الزام بغیر سند وحوالہ، ہرگز قابل ذکرنہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ میں حضرت علی سے منسوب اقوال کی جعل سازی کی بابت، بارہا تحریروتقریرمیں وضاحت کرچکاہوں۔

رنگِ سخن کی بات ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں دومزید نکات بھی پیش کروں:

ا)۔یاس ؔ یگانہؔ چنگیزی کے ’غالبؔ شکن‘ ہونے سے قطع نظر، لکھنو ئ میں غالبؔ کے رنگِ سخن(نیز طرزِمیرؔ) کی پیروی میں عزیزؔ لکھنوی(1882ء تا 1935ء)نے منفرد مقام حاصل کیا۔

ب)۔’غالبِ ثانی‘ علامہ وحشت ؔ کلکتوی (1881ء تا 1956ء)نے رنگِ غالب ؔ کا تتبع کرتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت قایم رکھی۔اُن کا یہ شعر ضرب المثل ہے:

خیال ِترکِ محبت تو باربارآیا
مجالِ ترکِ محبت نہ ایک بار ہوئی

کیا ان دونوں بزرگوں کے کلام میں پائی جانے والی کسی قسم کی اتفاقی مطابقت یا مماثلت کو بھی ’فاضل‘ ماہرین سرقے کے کھاتے میں ڈالیں گے؟
یہاں ایک اور بڑا مسئلہ ہے،کسی بھی مشہور یا بڑے شاعر کے کلام میں کسی اور کا کلام شامل ہونا جسے الحاقی کلام کہتے ہیں۔اس ضمن میں بعض اوقات کسی اور کاکلام بھی سہواً یا ارادتاً دوسرے سے منسوب کردیا جاتاہے۔اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔سوداؔ کے کلام میں الحاقی کلام کا بڑا حصہ شامل ہوا۔اُن کے معروف شاگرد قائمؔ چاند پوری کی مثنوی درشدّت ِ سرما، خود سوداؔ سے منسوب کردی گئی۔مطلع:

سردی اب کے برس ہے اتنی شدید
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید

قائمؔ کا بعض دیگر کلام بھی اسی طرح استاد کے دیوان میں داخل کردیا گیا۔سوداؔ کے شاگرد،فتح علی شیداؔ کی مثنوی ’بوم وبقال‘ (در ہَجوِ فِدویؔ لاہوری)، فضل علی ممتازؔ کی مثنوی ’درتوصیفِ چھڑی‘، بندرابن راقمؔ کا ہجویہ قصیدہ،مہربان خان مہرباں ؔ و رِندؔ کے اٹھارہ مراثی بھی اسی زُمرے میں آتے ہیں،جبکہ بعض کلام میر سوز ؔ اور سوداؔ دونوں ہی کے دیوانوں میں مشترک ہے اور اس کی تحقیق باقی ہے۔انتساب کے ضمن میں یہ بھی ایک عجیب معاملہ ہے کہ محض طرز ِ سخن کی پیروی کے سبب، پورا پورا کلام ہی ممدوح سے غلط منسوب کردیا جاتا ہے۔ماضی قریب میں زباں فہمی میں اس بارے میں لکھا جاچکا ہے۔(زباں فہمی کالم نمبر 74: علامہ اقبال اور دیگر شعراء سے سہواً منسوب اور جعلی کلام، اتوار 29 نومبر 2020،اورزباں فہمی کالم نمبر 123:طرزِ اقبالؔ میں شاعری کرنا، اتوار 14 نومبر 2021)۔

1998ء میں حیدرآباد (سندھ) کے پہلے ادبی دورے میں جامعہ سندھ سے منسلک، ڈاکٹر سید جاویداقبال صاحب سے معلوم ہواکہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کی مؤلفہ،سندھی اردو لغت، درحقیقت، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کاعلمی کارنامہ ہے جو اُنھوں نے اپنے زمانہ معلمی میں اپنے شیخ الجامعہ کے نام کردیا تھا۔اس انکشاف کی بازگشت تو بہت سنی، مگر ابھی تک اس کا کتابی حوالہ یا ثبوت ہاتھ نہیں آیا۔(اس قسم کے معاملات مولوی ڈاکٹرعبدالحق کے مولوی احتشام الدین حقی اور اختر حسین رائے پوری کے ساتھ رہے، مگر یہ انکشافات تحریری شکل میں منضبط کیے جاچکے ہیں)۔ہمارے بزرگ کرم فرما پروفیسر آفاق صدیقی مرحوم نے اس خاکسار سمیت اپنے تمام حلقہ بگوش افراد کو یہ بات کھُل کر بتائی اور اپنے خودنوشت حالات بعنوان ”صبح کرنا شام کا“ میں لکھی کہ سندھی کے عظیم شاعر شاہ لطیفؔ بھٹائی کے’شاہ جو رسالو‘ کا منظوم اردو ترجمہ، شیخ ایاز کا نہیں، اُن کا اپناکارنامہ ہے۔اُن کے موئیدین میں،ہمارے دوست، سندھی واردو کے مشہور شاعر تاجؔبلوچ شامل تھے۔

؎ افسوس، بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
آزادؔانصاری

(12اکتوبر 1871ء بمقام ناگ پور۔1942ء بمقام حیدرآباد، دکن)
سرقہ وتوارُد کے موضوع پرشایع ہونے والی،تازہ ترین تالیف کے معاونین میں شامل ایک بزرگ معاصر،بنفسہ خود بھی اسی الزام کی زدمیں آتے رہے ہیں۔
(جاری)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔