پاکستان کو شمال مغرب میں نئی پالیسی کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 23 جنوری 2023
ملک کی سیاسی قیادت باہم دست وگریباں ہے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں مزید گہرا اور ناقابل حل بنا رہی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

ملک کی سیاسی قیادت باہم دست وگریباں ہے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں مزید گہرا اور ناقابل حل بنا رہی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

خیبرپختونخوا کے اہم شہر چارسدہ میں نوشہرہ روڈ پر واقع ڈھیری زرداد پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک اہلکار شہیدہو گیا جب کہ دواہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ اس حملے کے بعد دہشت گرد فرار ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکاروں نے جوابی فائرنگ بھی کی اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ایک دہشت گرد کو گولیاں بھی لگیں لیکن اس کے ساتھی اسے بھی اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔

پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشت گرد بڑے تسلسل کے ساتھ وارداتیں کر رہے ہیں‘چند روز قبل پشاور کے تھانے سربند پر دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کیا ،دہشت گردی کی اس واردات میں ڈی ایس پی بڈھ بیراپنے دو گن مینوں کے ہمراہ شہید ہوئے تھے۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گرد تقریباً ایک ڈیڑھ برس سے سرگرم ہیں ‘ ان کے سہولت کاروں اور کیرئیرز کا نیٹ ورک بھی شہروں اور قصبوں میں متحرک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد بڑے تواتر کے ساتھ پولیس کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔خیبرپختونخوا میں دہشت گرد گروپوں کی شکل میں ڈکیتی اور لوگوں کو اغوا کرنے کے لیے آتے ہیں‘ صوبے میں امن و امان کی صورت حال بھی خاصی خراب ہے۔

سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی ایسے لوگوں کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ رات کے وقت گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنے ٹارگٹ تک پہنچتے ہیں۔صوبے میں بھتہ وصولی کی وارداتیں بھی عام ہو گئی ہیں۔

دہشت گرد کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ ایک جانب وہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو دوسری طرف خوشحال لوگوں کو ٹارگٹ کر کے ان سے بھتہ وصول کرتے ہیں‘ لوٹ مار اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

سیکیورٹی فورسز اور پولیس دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کومبنگ آپریشن کر رہی ہیں۔پنجاب میں ایسے آپریشنز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ان آپریشنز میں بیسیوں ایسے لوگ گرفتار کیے گئے ہیں جو دہشت گردوں کے سہولت کار تھے اور دہشت گردوں کو ان کے ٹارگٹ تک پہنچانے کا کام بھی کرتے تھے۔

دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ملک کے اندر ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔پنجاب میں سی ٹی ڈی کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے اور ان کی ٹریننگ بھی بہترین ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں فی الحال دہشت گرد اس طرح متحرک نہیں ہو سکے جیسے خیرپختونخوا اور بلوچستان میں متحرک ہیں۔

سندھ حکومت نے بھی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے پولیس کو سہولتیں فراہم کی ہیں لیکن ابھی سی ٹی ڈی کو جدید ترین اسلحہ کی مزید ضرورت ہے کیونکہ ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ دہشت گردوں کے پاس تھرمل ہتھیار ہیں۔

ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں سی ٹی ڈی پولیس کی نفری بڑھانے کی ضرورت ہے وہاںانٹیلی جنس نیٹ ورک کو فعال کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان پولیس کے پاس نفری بھی کم ہے اور دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس جدید اسلحے کی بھی کمی ہے‘ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کی ٹریننگ کا معیار بھی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گرد زیادہ آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی خاصا فعال ہے‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مخصوص مائنڈ سیٹ بھی دہشت گردوں کو ساز گار ماحول فراہم کرتا ہے۔

ان صوبوں میں قوم پرستی کے نام پر اور مذہب کی آڑ لے کر ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس کی بنیاد دوسروں سے نفرت پر رکھی گئی ہے‘ یہاں کی سیاسی جماعتیں اور انٹیلی جنسیا کے ذہنوں پر یہ سوچ غالب ہے کہ وفاق اور پنجاب ان کا استحصال کر رہے ہیں۔

یہی سوچ طلباء کے ذہنوں میں راسخ ہوگئی ہے ‘ حالانکہ قوم پرستی کی سیاست کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ مثبت بیانیے کو پروان چڑھایا جائے اور خود احتسابی کے عمل کو اختیار کیا جائے‘ صوبوں کی حکومتوں کے اختیارات پر غور کیا جائے اور پھر ان حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر صوبے کے بہت سے مسائل ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ صوبوں کے پاس وسائل بالکل ہی نہیں ہیں۔خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور سرکاری مشینری کا حجم صوبے کے وسائل کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑا ہے۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں جو صنعتیں آتی ہیں ‘دیکھنا یہ ہے کہ ان صنعتوں کے ترقی اورفروغ کے لیے متعلقہ صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کیے ہیں۔

یہ حقیقت واضح ہے کہ دہشت گردوں کے فکر و فلسفے کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہ حقیقت دہشت گردوں‘ ان کے سرپرستوں ‘ ان کے ہینڈلرز اور سہولت کاروں کو بھی بخوبی معلوم ہے۔

خیبرپختونخوا میں سوات‘ وانا اور دیگر علاقوں میں مقامی لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں کے خلاف سڑکوں پر آ کر مظاہرے کیے ہیں۔ یہ عوام کی طرف سے ریفرنڈم ہے کہ وہ انتہا پسند بیانیے اور دہشت گردوں کے حامی نہیں ہیں بلکہ ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔پنجاب میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئی ہیں اور ان کا زیادہ ٹارگٹ جنوبی پنجاب ہے۔

ڈیرہ غازی خان کے علاقے تونسہ میں بھی پولیس ٹیموں پر حملے ہوئے ہیں۔ دہشت گرد خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں زیادہ کارروائیاں کر رہے ہیں‘ اس کا مطلب ہے کہ ان دو صوبوں میں ان کا نیٹ ورک زیادہ متحرک اور فعال ہے۔ انھی علاقوں سے وہ پنجاب اور سندھ میں آ کر اپنے سہولت کاروں کی مدد سے دہشت گردی کرتے ہیں۔

یہ حقائق معمولی شدبد رکھنے والے افراد کو بھی معلوم ہیں لیکن ہماری ریاستی مشینری ‘ وفاقی ، صوبائی حکومتیں اور ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں اس حوالے سے چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہی ہیں یا ان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔

پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے آج تک انتہا پسندی کے مقابل بیانیہ تشکیل نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی ایسی سیاسی پارٹیاں ہیں جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ رکھتی ہیں۔

اگر ملک کی ساری سیاسی قیادت انتہا پسندی کے خلاف ایک پیج پر آ کر اپنی اپنی سیاست کریں تو پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ مشکل نہیں ہے۔

ملک کی سیاسی قیادت باہم دست وگریباں ہے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں مزید گہرا اور ناقابل حل بنا رہی ہے۔ پاکستان کے معاشی بحران کی اصل وجہ بھی سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس عدم استحکام کو بڑھانے میں جہاں سیاسی قیادت کی کم عقلی اور کم فہمی کا عمل دخل ہے وہاں ریاستی اداروں میں بیٹھے افراد کے غلط فیصلے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان کے پالیسی ساز اور اسٹیک ہولڈرز ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ بدلتی ہوئی عالمی صف بندی میں انھوں نے کہاں کھڑے ہونا ہے۔ملک کی خارجہ پالیسی کے اس ابہام نے بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلا اوروہاں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کی صورت حال کے بارے میں ہمارے پالیسی ساز کوئی راہ عمل مرتب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے‘ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اس کی کبھی تیاری ہی نہیں کی اور نہ افغانستان ‘وسط ایشیاء اور ایران کے حوالے ہی سے تھنک ٹینک قائم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں اور پڑھے لکھے طبقے میں بھی ان ملکوں میں موجود نسلی ‘ثقافتی اور مذہبی تقسیم کے بارے میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں نے افغانستان کے نسلی اور قبائلی سیٹ اپ میں ایک اکثریتی گروپ کو ضرورت سے زیادہ سپورٹ کیا ہے حالانکہ افغانستان میں دیگر نسلی ‘قبائلی اور لسانی گروہ بھی طاقتور فریق ہیں۔

ان کے بغیر افغانستان میں پائیدار حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے جس اکثریتی گروپ کی حمایت کر کے امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات خراب کیے ‘اس نے بھی پاکستان کے مفادات کے برعکس پالیسی اپنائی ہے۔

افغانستان پر حکومت کرنے والے ہر گروہ نے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں کبھی قوم پرستی کے نام پر اور کبھی مذہب کی آڑ میں اپنی پراکسیز پیدا کیں‘اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے تاجک ‘ازبک‘ ہزارہ منگول‘ پامیری‘گرجرزقبائل کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرے۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو شمال مغرب کے حوالے سے اپنی 75سالہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔