ریاست، معیشت یا سیاست

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 23 جنوری 2023
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے جب شہباز شریف کی قیادت میں عنان حکومت سنبھالا تو اس کے اکابرین کی طرف سے یہی کہا جاتا رہا کہ ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ریاست بچانے کی کوشش کی ہے۔

نو مہینوں کی جانفشانی محنت اور تگ و دو کے بعد حالات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ اُن کی سیاست تو بچی یا نہیں لیکن ریاست مزید کھائی میں گر گئی ہے۔

وہ ریاست بچانے نکلے تھے مگر ریاست کو مزید مشکلات میں گھرتا دیکھ کر اب اُن کے بھی اوسان خطا ہونے لگے ہیں ، وہ آپس میں الجھتے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو الزام بھی دیتے جا رہے ہیں۔

معیشت سدھارنے کی کوئی تدبیر اُن کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ مفتاح اسمعیل اُن کے اپنے وزیر خزانہ تھے اور وہ چھ مہینوں تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔

انھوں نے جو جو مشکل فیصلے کیے حکمرانوں کی مکمل اور بھر پور تائید انھیں حاصل رہی ، لیکن چونکہ وہ ایک منتخب پارلیمنٹرین نہیں تھے، اس لیے آئین و دستور کے مطابق چھ ماہ سے زائد وہ ایک وزیر کی حیثیت سے یہ عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے ، انھیں بہرحال واپس جانا ہی تھا اور اُن کے متبادل کے طور پر فوری طور پر صرف ایک ہی شخصیت ایسی تھی جسے یہ ذمے داری سونپی جاسکتی تھی وہ تھے اسحق ڈار۔

اسحق ڈار کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ماضی میں ایک اچھے معیشت داں اور وزیر خزانہ ثابت ہوچکے تھے اور موجودہ ماہرین معیشت و اقتصادیات میں جو حکومت کے کیمپ میں موجود ہیں اُن میں سے اس وقت اُن سے بہتر کوئی اور شخصیت اس عہدے کے لیے مناسب نہیں ہوسکتی تھی اور چونکہ وہ ایک منتخب سینیٹر بھی تھے لہٰذا انھیں بیرون ملک سے واپس بلوا کے اس عہدے پر فائز کیا گیا۔

شروع شروع میں یہ گمان کیا جانے لگا کہ اسحق ڈار ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب اور سر خرو ہو جائیں گے لیکن اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ملک وقت کے ساتھ ساتھ مزید مشکلات میں گھرتا جا رہا ہے۔ اس وقت یہ حالات ہیں کہ مسلم لیگ نون سمیت ساری پی ڈی ایم کی سیاست خطرات سے دوچار ہے ۔

ریاست کے ڈیفالٹ ہونے کا مطلب وطن عزیز کی خود مختاری اور سالمیت سب کی سب داؤ پر لگ جائے گی۔ سری لنکا میں جو کچھ ہوا ہمارے یہاں اس سے زیادہ ردعمل آسکتا ہے۔ ہمارا ملک 23 کروڑ افراد کا ملک ہے یہاں کے مسائل سری لنکا سے بھی زیادہ گھمبیر ہیں۔

اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو ، مگر حکومت اس صورتحال سے بچنے کے لیے کیا کر رہی ہے کسی کو پتا نہیں۔ ملک کے اندر فوری طور پر ڈالرز نہیں آئے تو دو چار مہینوں میں ہم کہاں کھڑے ہونگے اس وقت ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ سیاستدانوں کو صرف اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے ۔

وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کے معاشی حالات کس قدر خراب ہوچکے ہیں وہ صرف اپنی بانسری بجا رہے ہیں ، بلکہ یہ کہا جائے تو بھی شاید غلط نہ ہوگا کہ وہ تو ڈیفالٹ ہونے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن کی سیاست کی کامیابی کا سارا دار و مدار اب ملک کے ڈیفالٹ کر جانے پر منحصر ہے۔

دوسری جانب حکومت میں بیٹھے سارے دانش مند اور صاحب بصیرت لوگ معلوم نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔ کوئی ایک شخص بھی اپنے حکمرانوں کو عقل اور سوجھ بوجھ دینے والا موجود نہیں ہے۔

تین ماہ سے کراچی پورٹ پر لگے کنٹینروں کو روک کر کیا کچھ فوائد حاصل کر لیے گئے ہیں۔ الٹا شپنگ کمپنیوں کو جرمانے کی مد میں کروڑوں ڈالر کا نقصان کر لیا گیا ہے۔ اسحق ڈار بھی اس جانب کوئی فیصلہ کیوں نہیں کرتے ، وہ تو ڈالر کو200 تک واپس لے جانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔

اُن کے مطابق اگر ڈالرز کی اس مصنوعی قیمت اور اس کی قلت میں ہمارے بینکوں کا ہاتھ ہے تو وہ ابھی تک اُن بینکوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کر پائے ہیں۔ مفتاح اسمعیل اگر چار ماہ پہلے IMF کی شرائط ماننے جا رہے تھے تو شاید وہ غلط نہ تھے۔ ڈالر کو زبردستی قابو میں رکھنے کی حکمت بھی اس بار کارگر ثابت نہ ہو پائی ہے۔ فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ بزنس مین اپنا پیسہ ملک سے باہر منتقل کرنے لگے ہیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اب پیسہ بینکوں کے ذریعے بھیجنے کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہ سارے نقصانات ہمارے حکمرانوں کو کب دکھائی دینگے ۔ ہم فیصلے کرنے میں جتنی دیر کرتے جا رہے ہیں نقصانات بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔

کوئی معجزہ یا کرشمہ ہی اب اس ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا سکتا ہے ، ورنہ حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ معیشت کی اس سنگین صورتحال میں کیا نئے انتخابات کروائے جاسکتے ہیں اور اگر کروا دیے گئے بھی تو کیا اس کے نتائج خان صاحب قبول کرلیں گے۔

خان صاحب جنھیں صرف اور صرف اپنی سیاست عزیز ہے وہ نہ الیکشن کمیشن کو مانتے ہیں اور نہ کسی اور کو۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے تو وہ پہلے ہیں ناراض ہیں۔ الیکشن کے نتائج اگر اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہوئے تو وہ دوسرے دن سے ہی ایک بار پھر سڑکوں پر ہونگے۔

اربوں روپے خرچ کر کے انتخابات کے بعد بھی ملک کے اندر اگر سیاسی بحران قائم رہتا ہے بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے تو پھر کیا ہم ایک بار پھر سقوط ڈھاکا کی مشق دہرانے جا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ملک کے دشمنوں کی یہی کوشش اور چال ہو۔ نئے الیکشن اب صرف اسی وقت کروانے چاہئیں جب خان صاحب تحریری طور پر یہ ضمانت دیں کہ الیکشن کے نتائج جو بھی ہوں جیسے بھی ہوں وہ تسلیم کرلیں گے۔

اس کے بغیر اس ساری مشق کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ملک میں افراتفری اور انتشار مزید بڑھے گا اور ملک خدانخواستہ ایک خطرناک انجام سے دوچار ہوجائے گا۔

پھر نہ کسی کی سیاست رہے گی ، نہ معیشت اور نہ ریاست باقی رہے گی۔ اہل دانش اور محب وطن طبقے کو اب آگے بڑھنا ہوگا۔

ساتھ ہی ساتھ مقتدر حلقوں کو جن کی ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ہم اس مشکل سے دوچار ہیں انھیں بھی اب اس مشکل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ایسا حل کہ یہ ملک بھی قائم رہے اور معیشت بھی سدھر جائے ۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ، جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلد کرنا ہوگا۔ لمحوں کی تاخیر اور غفلت ہمیں ایک خوفناک انجام سے دوچار کرسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔