یوٹیوب اور ہمارا کردار۔۔۔!

ڈاکٹر عبد الباسط  پير 7 اپريل 2014
یوٹیوب پر پابندی لگنے سے قیادت کی نا اہلی اور عوام کی منافقت دونوں ہی واضح ہو گئی ہیں۔

یوٹیوب پر پابندی لگنے سے قیادت کی نا اہلی اور عوام کی منافقت دونوں ہی واضح ہو گئی ہیں۔

افسوس صد افسوس ! کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو پورا سچ لکھے۔ پورا سچ کہے اور سب سے بڑھ کر پورا سچ سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمارا نظام زندگی ادھورے سچ پر قائم ہے ۔ جنون، تشدد، بائیکاٹ یہ اوصاف ہمارا قومی مشغلہ بنتے جا رہے ہیں۔

دنیا کے کسی کونے میں کوئی پاگل ، کوئی مجنوں ، کوئی وحشت پسند یا کوئی درندہ صفت انسان اپنے غلیظ ذہن سے کوئی خیال وضع کرے تو ہم نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرنا اولین فرض سمجھ رکھا ہے۔ کاش کوئی ہمیں سمجھائے کہ زندگی رد عمل کا نہیں بلکہ عمل کا نام ہے۔ ہم کسی کے ناپاک جرات کا مدلل جواب دینے کی بجائے اپنا ہی سر پھوڑتے ہیں اور اپنی ہی بے گناہ عمارتوں کو تباہ کرتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟ فقط اس لیے کہ ہم اس حقیقت کو قبول کرنا نہیں چاہتے جسے دنیا نے مان لیا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کا قانون کسی ضابطے یا کسی اخلاق کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” پر چلتا ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سز ا مرگ مفاجات

ہم اپنا احتساب کرنے کو تو تیارہی نہیں ہیں اور خود فریبی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہمیں ہر چیز سے سازش کی بو آتی ہے۔ حالانکہ اس قدر لولی لنگڑی معیشت کے ساتھ لا چار امت مسلمہ کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خود کو تباہ کرنے کے لیے ہم اور ہمارے خیالات ہی کافی ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہماری مثال اس کبوتر کی سی ہے جو خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے پر یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے جبکہ حققیت اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ ہر مسئلے پر وقتی رد عمل اور اس کا وقتی حل کوئی ہم سے سیکھے۔

آپ کو یہ تو یاد ہی ہوگا کہ گزشتہ سال ایک ویڈیو فلم کی وجہ سے پاکستان میں یو ٹیوب پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اور اب ایک سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکے اور اسی وجہ سے پوری دنیا کی نظروں میں ہم تماشہ بن کے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف وسیع تر تحقیق اور علم کے مرکز یوٹیوب پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے تو دوسری طرف ہم نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ دنیا میں ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی طاقت بھی اتنی نہیں ہے کہ وہ یو ٹیوب سے ایک فلم ہی ڈیلیٹ کروا سکیں۔ ظاہر ہے ہو بھی کیسے ۔ ہم نے دنیا کو کیا دیا ہے؟ ہمارے پاس ہمارے جابر بن حیان، الخوارزمی ، ابن الہیثم کے قصے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج حرم پاک میں فروخت ہونے والی جائے نمازوں سے لے کر میڈیکل اور انجینئرنگ کی کتابوں تک، بالوں میں پھیرنے والی کنگھی سے لے کر جنگوں میں استعمال ہونے والے ٹینکوں تک سب کچھ غیر مسلموں کی ایجاد ہے جس پر ہمیں کوئی عتراض نہیں۔
ذرا سوچئے یو ٹیوب کو ہم نے کیا دیا ہے؟ اس کی آمدن میں ہمارا کیا کردار ہے؟ اس وقت امریکا یو ٹیوب کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ امریکا کے بعد اگر10بہترین ممالک کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو پوری فہرست میں ایک بھی مسلم ملک کا نام نہیں۔ اس فہرست میں یو کے اول ہے اور انڈیا کا دوسرا نمبر ہے، اسی طرح اگر یو ٹیوب کے 10بہترین آزاد چینلز پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بھی کسی چینل کا تعلق مسلم ملک سے نہیں ہے۔

مارچ 2010 میں جب یو ٹیوب نے مفت لائیو نشریات کا آغاز کیا تو انڈین پریمئر لیگ کے 60 میچز کو مفت دکھایا گیا تھا۔ جنوری 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق یو ٹیوب پر روزانہ 4بلین سے زیادہ وڈیوز دکھائی جا رہی ہیں اور اس وقت روزانہ ہزاروں ویڈیوز یوٹیوب پر اپ لوڈ ہورہی ہیں۔ پھر ہماری پابندی سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟

یوٹیوب پر پابندی لگنے سے قیادت کی نا اہلی اور عوام کی منافقت دونوں ہی واضح ہو گئی ہیں۔ ایک طرف حکمران اس قدر فاتر العقل ہیں کہ مذاکرات کی میز پر یو ٹیوب کے مالکان سے ایک وڈیو تک ہٹوا نہ سکے، اور دوسری طرف ہماری عوام اس قدر خود فریبی کا شکار ہیں کہ یو ٹیوب پر پابندی لگوانے کے بعد ہر روز “دو نمبر ـ ” طریقے سے یو ٹیوب کھولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے عشق رسول ﷺ کا حق ادا کر دیا ۔

اگر میں ابھی لکھوں کہ یو ٹیوب کھول دی جائے تو میں اور میرا سارا قبیلہ “غیرت مند مسلمانوں ” کی زد میں آجائیں گے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کے اس ملک میں یوٹیوب پر پابندی لگانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پابندی کے بغیر ہی آپ یو ٹیوب سے منہ موڑ لیتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پابندی کے باوجود ہر کوئی یو ٹیوب کھولتا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پابندی کے حق میں تقریریں کرتے اور دلائل دیتے ہیں۔ اگر حکومت ابھی یو ٹیوب کھولنے کا اعلان کر دے تو ہمارے ٹی وی چینلز شور مچائیں گے کہ حکمران غیر مسلموں کے اثر سے مرعوب ہو کر ایسا کر رہے ہیں اور گستاخ رسول ﷺ وڈیو ابھی تک یوٹیوب پر موجود ہے جبکہ اگر ان چینلز کی حقیقت دیکھنے کے لیے یو ٹیوب پر ابھی جا کر ان کے پروگرامز سرچ کریں۔ آپ کو ہر پروگرام5سے 10منٹ بعد وہاں اپ لوڈ مل جائے گا۔ اگر واقعی یو ٹیوب پر پابندی ہے تو ہمارے نیوز چینلز کی یہ ویڈیوز اپ لوڈ نگ کہاں سے ہو رہی ہے؟

ارے دوستو! یو ٹیوب پر پابندی سے کچھ نہیں ہو گا۔ اپنے نفس پر پابندی لگاؤ۔ اپنی خواہشات پر پابندی لگاؤ۔ اگر عشق رسول ﷺ کا اتنا دعویٰ ہے تو اپنے کردار سے ثابت کرو۔ دنیا کی نظروں میں اس طرح تماشا بننے سے بہتر ہے کہ حقیقت کا سامنا کرو۔اور حقیقت یہ ہے کہ یو ٹیوب وقت کی ضرورت ہے ۔ بہرحال اب یو ٹیوب کا معاملہ کمیٹیوں کے سپرد ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تمام کمیٹیاں کب سر جوڑ کر بیٹھیں گی اور کب مسئلہ حل ہو گا؟ نہ سو من تیل ہو گا ۔۔۔ نہ رادھا ناچے گی۔۔۔!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔