بجلی کا بریک ڈاؤن

ایڈیٹوریل  بدھ 25 جنوری 2023
پاورہاؤسزصبح 7بجے چلائے گئے توانجینئرز اورمتعلقہ حکام نے لاپروائی برتی،جس کے باعث فریکوئنسی آؤٹ ہوئی اورسسٹم بیٹھ گیا (فوٹو:فائل)

پاورہاؤسزصبح 7بجے چلائے گئے توانجینئرز اورمتعلقہ حکام نے لاپروائی برتی،جس کے باعث فریکوئنسی آؤٹ ہوئی اورسسٹم بیٹھ گیا (فوٹو:فائل)

گزشتہ روز بریک ڈاؤن کے باعث پورا پاکستان بجلی سے محروم ہوگیا ، جس کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑا ہے، طویل بریک ڈاؤن کی جو ابتدائی وجوہات سامنے آئی ہیں۔

ان کے مطابق تیل اور گیس بچانے کے لیے متعدد پاور پلانٹس بند تھے، 2 بار تربیلا سے خرابی شروع ہوئی، گڈو اور تھرمل پاور اسٹیشنز سے بھی مسئلہ خراب ہوا۔

پاور ہاؤسز صبح 7 بجے چلائے گئے تو انجینئرز اور متعلقہ حکام نے لاپروائی برتی، جس کے باعث فریکوئنسی آؤٹ ہوئی اور سسٹم بیٹھ گیا، سسٹم میں موجود 9 ہزار میگاواٹ بجلی کو نہیں سنبھالا جا سکا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ملک میں بجلی کا نظام مکمل بحال کر دیا ہے ، تاہم اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں ملک میں بجلی کی کمی رہے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بریک ڈاؤن کی وجوہات اور اسباب جاننے کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی ہے ، جس کی سربراہی مصدق ملک کریں گے۔ملک میں بجلی کا بحران 2014سے اب تک 9 ویں بار آیا ہے۔

پاکستان میں یہ شعبہ سب سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرتا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی حالت دگر گوں ہے۔ پاکستان میں کوئلے، قدرتی گیس، آبی ذرایع اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ بجلی کا بریک ڈاؤن انفرا اسٹرکچر کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ ہم نے بجلی کی پیداوار میں تو اضافہ کرلیا مگر بجلی کے ٹرانسمیشن سسٹم کو مضبوط نہ بنا سکے کہ وہ 30ہزار میگاواٹ بجلی تسلسل کے ساتھ فراہم کرسکے۔

بجلی کی بندش سے پاکستانی عوام شدید مشکلات کا شکار ہوئے، نا صرف گھریلو صارفین بجلی نہ ہونے کے باعث روشنی اور پانی سے محروم رہے بلکہ گھروں میں انٹرنیٹ میں تعطل کے باعث بچوں کی پڑھائی بھی متاثر رہی ، جن گھروں میں یو پی ایس کی سہولت موجود تھی وہاں پر بھی بیٹری ختم ہونے کے باعث مسائل رہے۔

شاہراؤں پر کئی ٹریفک سنگلز اور اسٹریٹ لائٹس بھی نہیں چل رہی تھیں، جب کہ سرکاری اسپتالوں میں جنریٹرز کے مسلسل استعمال کے باعث صرف ضروری ترین سہولیات مہیا کی جاتی رہیں، پٹرول پمپس پرگاڑیوں کے ٹائروں میں ہوا بھرنے کی مشینیں بند رہیں۔

لوگ بجلی کی بندش کی وجہ سے موم بتیاں اور ایمرجنسی لائٹس خریدتے رہے، روزانہ اجرت پر کام کرنے والے بیشتر افراد بنا کچھ کمائے ہی خالی ہاتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ تجارتی مراکز اور مارکیٹوں میں پورا دن کوئی کام نہیں ہو سکا۔ بریک ڈاؤن کے بعد پورے ملک میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

دوسری جانب بجلی کی بندش کی وجہ سے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن اور حب ندی سے کراچی کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی اور پانی کی فراہمی کا نظام معطل ہوگیا ، شہر کو 30 کروڑ گیلن پانی فراہم نہ ہونے سے پانی کے بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

شہر میں پانی فراہم کرنے والی لائف لائن دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سے پانی کی فراہمی بند ہوگئی جس سے شہر کو یومیہ 44 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ حب ڈیم دوسرا بڑا ذریعہ ہے جہاں سے یومیہ 10 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے وہاں سے بھی پانی فراہم نہ ہوسکا، اسی طرح گھارو، این ای کے، پیپری پمپنگ اسٹیشن سے بھی پانی کی فراہمی بند ہوگئی۔

رات گئے تک 30 کروڑ گیلن سے زائد پانی شہر کو فراہم نہیں کیا جاسکا ، جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہوگئی۔ ذرایع واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ اگر بجلی میں کوئی تعطل نہیں آتا تو شہر میں پانی کی فراہمی معمول پر آنے میں 48 سے 72 گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔

کراچی میں کے الیکٹرک کی کارکردگی کی ایک بار پھر قلعی کھل گئی، نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی معطل ہوتے ہی کراچی میں بجلی کا نظام درہم بر ہم ہوگیا جب کہ کے الیکٹرک اپنے پاور پلانٹ کے ذریعے شہر میں بجلی بحال کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

یہاں پر اہم ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک اپنے گرڈ اسٹیشن سے تیل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے نام پر کراچی کو مہنگی بجلی فراہم کرتی ہے جب کہ کے الیکٹرک کا سارا نظام ترسیل ہی وفاق کی جانب سے ملنے والی بجلی پر ہے تو مہنگی بجلی کی فراہمی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے ؟

اندھیرے میں ڈوبے ملک کے عوام جاننے کی کوشش میں ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ تین ماہ کے دوران ہونے والا بجلی کا دوسرا بڑا بریک ڈاؤن آخر ہوا کیوں؟ اس حوالے سے کئی قیاس آرائیاں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ توانائی کے اخراجات میں کمی اور ایندھن کی قلت پر قابو پانے کے اقدام نے ملک کو پتھر کے تاریک دور میں پہنچا دیا۔

پاور ڈویژن کے حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک میں ’’لو کنزمپشن‘‘ (کم استعمال کے اوقات) میں بجلی گھر رات کو بند کردیے جاتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔ پیر کی صبح تکنیکی ماہرین دوبارہ سسٹم کو بوٹ (دوبارہ شروع) نہیں کر سکے اور اس نے ملک بھر میں ہونے والی وسیع تر خرابی کو جنم دیا۔

وزیر توانائی خرم دستگیر نے بھی تصدیق کی کہ رات کے وقت پلانٹس بند کرنے کا رواج موجود ہے۔ انھوں نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’’کیونکہ سردیوں میں بجلی کی طلب کم ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر سسٹم رات کو بند ہو جاتے ہیں اور اگلی صبح ایک ایک کر کے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘ برسوں سے، پاکستان اپنے توانائی کے شعبے کو فروغ دینے اور بجلی کے بلیک آؤٹ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس سے ملک گزشتہ ایک دہائی سے دوچار ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013 میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے کا انتظام کیا تھا لیکن، یوکرین جنگ کے دوران ایندھن کے زیادہ اخراجات، درآمدی توانائی کی مصنوعات پر انحصار، گیس کے ذخائر میں کمی، بجلی کے شعبے میں قرض، اور پرانی ترسیل اور تقسیم کے نظام کی وجہ سے ملک اب بھی جدوجہد کر رہا ہے۔

انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن نے پاکستان کے بارے میں جاری اپنے جائزے میں کہا کہ ’’کمزور گورننس ، غیر مربوط توانائی کی پالیسی سازی اور طویل مدتی توانائی کی منصوبہ بندی کی کمی نے بھی پاکستان کی توانائی کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔‘‘ پاکستان اپنا خام تیل (توانائی کی درآمدات) کا بڑا حصہ خلیج سے حاصل کرتا ہے اور اب یو کرین جنگ کے بعد روس پر پابندیوں کے تناظر میں سستے آپشنز کی تلاش میں ہے۔

دونوں ممالک نے مارچ کے آخر تک خام تیل کی فراہمی کے لیے تمام الجھنوں (نقل و حمل، انشورنس، ادائیگی اور رولنگ) کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

کریملن توانائی کے حصول کا واحد سستا راستہ نہیں ہے، پاکستان بہت بڑے درآمدی بلوں کا سامنا بھی کر رہا ہے۔ ملک آذربائیجان، ترکمانستان اور ایران کے ساتھ مل کر توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے کام کر رہا ہے۔پاکستان میں بجلی کی طلب کے بارے میں حکومتیں ہمیشہ غلط اعداد و شمار پیش کرتی رہی ہیں۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی طلب 20 ہزار میگا واٹ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے سابق وزیر حماد اظہر نے دعویٰ کیا کہ 24ہزار284 میگا واٹ کی پاکستان میں طلب ہے۔ دراصل پاکستان میں بجلی کی سہولت سے 20 فیصد عوام محروم ہیں۔

اکنامک سروے 2021اور22کے مطابق پاکستان میں جتنے پاور پلانٹس نصب ہیں ان کی پیداواری صلاحیت 41ہزار 557 میگا واٹ ہے جب کہ رہائشی اور صنعتی شعبوں کی ضرورت 30 ہزار میگاواٹ ہے، جب کہ تقسیم کار کمپنیوں کی صلاحیت 22 ہزار میگاواٹ تک محدود ہے۔

جب بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو کم از کم 8 ہزار میگاواٹ کی طلب بڑھ جاتی ہے اور یہ کمی پوری کرنے کے لیے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔

گویا عوام کو ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نااہلی کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے تانبے کے تاروں کی جگہ المونیم کے تار استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں ، جس کے نتیجے میں لائن لاسز میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ بوجھ بھی عوام پر پڑرہا ہے۔

بجلی کمپنیاں فیول ایڈجسمنٹ چارجز بھی لیتی ہیں اور یونٹ کے زیادہ استعمال پر بجلی کا نرخ بھی بڑھاتی ہیں اور اپنے بلوں میں ہر اقسام کے ٹیکس بھی شامل کرتی ہیں اور اگر کوئی صارف تاخیر سے بل جمع کرائے تو اس پر جرمانہ بھی عائد کرتی ہیں اور ان کی کارکردگی یہ ہے کہ بجلی کی مسلسل فراہمی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتیں اور یہ عوام سے حاصل شدہ ٹیکس کو قومی خزانے میں بروقت جمع بھی نہیں کراتیں ، لہٰذا ان کمپنیوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ یہ جب اپنے صارف سے ٹیکس وصول کرتی ہیں تو ہر ماہ کے بل کے ساتھ ان ٹیکسوں کے قومی خزانے میں جمع کرانے کی رسید بھی ہر صارف کو دیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی سے کتنی رقم جمع ہوئی ہے اور کتنی قومی خزانے میں گئی ہے۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا ) نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور نیپرا نے پاور پلانٹس کی کارکردگی غیر تسلی بخش اور بجلی کے محکمے میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔

ہم ان سطور کے ذریعے وفاقی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ ملک بھر میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کی شفاف تحقیقات کروانے کے بعد ان اسباب اور محرکات کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی جو اس کا سبب بنے۔ بجلی کے ترسیلی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔