پاک ایران سیکیورٹی معاہدہ

ایڈیٹوریل  پير 7 اپريل 2014
دونوں ملکوں میں تعاون بین الاقوامی پولیس کے قوانین اور دونوں ملکوں کے متعلقہ قوانین کے تحت ہوگا   فوٹو:فائل

دونوں ملکوں میں تعاون بین الاقوامی پولیس کے قوانین اور دونوں ملکوں کے متعلقہ قوانین کے تحت ہوگا فوٹو:فائل

ایران کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے ساتھ اس سیکیورٹی معاہدے کی توثیق کر دی ہے جس کے تحت دونوں ممالک انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعاون کر سکیں گے، اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک دہشت گردوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ، جرائم پیشہ عناصر کی شناخت، تعاقب اور ان کے خلاف کارروائیوں میں تعاون کریں گے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کے بارے میں اس معاہدے کو ایران کی پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر منظور کیا،اس معاہدے کے بعد دونوں ملک خطے میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ بھی کر سکیں گے۔ایرانی ذرایع ابلاغ کے مطابق دونوں ملکوں میں تعاون بین الاقوامی پولیس کے قوانین اور دونوں ملکوں کے متعلقہ قوانین کے تحت ہوگا،ایرانی پارلیمان کے رکن سید حسین نقوی حسینی نے ایک مقامی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ یہ معاہدہ گزشتہ سال حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا اور اس پر پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹی اور قومی سلامتی کی مجلس میں بحث اور غور و خوض کے بعد پارلیمان میں توثیق کے لیے لایا گیا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق ایران کے علاقے سیستان بلوچستان سے چار ماہ قبل پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو جیش عدل نامی ایک گروہ نے اغوا کر لیا تھا اور انھیں مبینہ طور پر پاکستانی علاقے میں کسی نا معلوم مقام پر رکھا ہوا تھا۔ ان سرحدی محافظوں کے اغوا کے بعد ایران حکومت نے سخت موقف اختیار کیا اور اپنے مغوی محافظوں کی رہائی کے لیے پاکستان سے مطالبہ کیا۔ ایران نے تہران میں پاکستانی سفیر کو بھی طلب کر کے احتجاج کیا۔ مغوی محافظوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملنے پر ایرانی حکومت کا رویہ مزید سخت ہو گیا اور ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پاکستان نے ایرانی سرحدی محافظوں کو رہا کرانے کے لیے کچھ نہ کیا تو ایران پاکستانی سرحد کے اندر فوج بھیج کر انھیں رہا کرانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایران کے اس لب و لہجے پر پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا اور ایران کو مغوی سرحدی محافظوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ بالآخر پاکستان کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور چار ایرانی سرحدی محافظوں کو رہا کرا لیا جب کہ پانچویں کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ اسے ہلاک کر دیا گیا تھا‘ اس کی لاش کے بارے میں ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہے‘ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پانچویں مغوی محافظ کی لاش بازیاب کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایرانی مغوی پاکستانی علاقے میں نہیں بلکہ ایرانی علاقے میں ہی تھے۔ بی بی سی کے مطابق ایران کے صدر حسن روحانی نے سرحدی محافظین کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایرانی مغوی سرحدی محافظوں کی بازیابی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والا تناؤ ختم ہو گیا ہے۔بدلتے ہوئے حالات کے مطابق یہ ناگزیر ہو گیا تھا کہ مستقبل میں ایسے ممکنہ واقعات کے اعادہ کو روکا جائے جس سے دو برادر مسلم ممالک کے تعلقات میں پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔

ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے سیکیورٹی معاہدے کی توثیق موجودہ حالات کی ضرورت بھی تھی‘ جس سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا بھی ہے تو دونوں ممالک باہمی تعاون سے اسے حل کر لیں گے اور ان کے درمیان کسی قسم کا شکایتی مرحلہ بھی پیدا نہیں ہو گا۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ پورے ملک میں بہت سے مسلح گروہ بدامنی پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ کراچی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے رینجرز کو تعینات کیا گیا۔ اگرچہ رینجرز اور پولیس نے بہت سے شر پسند افراد کو گرفتار کر کے بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کیا مگر یہ گروہ اس قدر زیادہ مضبوط اور ان کا نیٹ ورک اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ رہے۔ کراچی میں جہاں بے گناہ افراد کی لاشیں گرنے کا سلسلہ جاری ہے وہاں بینک ڈکیتیوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹیں بھی منظرعام پر آ چکی ہیں کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال بگاڑنے والے گروہوں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی۔ جب سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ گروہوں کا ساتھ دیں گی تو ایسے میں امن و امان کی صورت حال کیسے بہتر ہو سکتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ جرائم پیشہ گروہوں کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے اصل کردار کو بھی بے نقاب کیا جائے۔ بلوچستان میں صورت حال کی خرابی میں فرقہ واریت کے عنصر کا بنیادی کردار ہے۔ اس کے علاوہ ایسے گروہ بھی سرگرم ہیں جو سرکاری تنصیبات کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اتوار کو ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں نا معلوم افراد نے گیس پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی‘ کشمور میں گیس پائپ لائن اڑانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی اور دھماکا خیز مواد نصب کرتے ہوئے دس ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا‘ رحیم یار خان پولیس نے بھی بھونگ کے قریب مین گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش ناکام بنا دی اور تین تخریب کاروں کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے 9 کلو بارودی مواد برآمد کر لیا۔ موجودہ حکومت کو بہت سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور جرائم پیشہ گروہوں کی کارروائیاں سب سے بڑا چیلنج ہیں جس سے نمٹنے کے لیے حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ بدامنی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے پولیس کی تربیت کے روایتی نظام کو جدید خطوط پر استوار، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی رابطے، معلومات کے تبادلے اور تعاون کے نظام کو منظم کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔