وکھری ٹائپ کی ایمانداری

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 25 جنوری 2023
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

پچھلے دو کالموں میں ہم نے عمران خان کے ذاتی کردار، استعداد، طرزِ حکمرانی اورکارکردگی کا جائزہ لیا ہے۔ آج ہم اس کی شخصیت کے اس پہلو کا جائزہ لیں گے جس کا سب سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، یعنی ’’کچھ بھی ہے مگر عمران خان ہے تو ایماندار!‘‘

اب تو بہت سے ثبوت سامنے آ چکے ہیں مگر راقم آج سے دس سال پہلے بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین کی ’’ایمانداری‘‘ کو مشکوک سمجھتا تھا اس لیے کہ ایمانداری کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کے لیے ضروری ہے کہ ایک نوجوان کی تربیت اس ماحول میں ہو جہاں Value System بڑا مستحکم ہو۔

جس شخص کی زندگی کے اہم ترین (formative)ماہ و سال کھیل کے میدانوں اور نائٹ کلبوں میں گزرے ہوں اس کی رزقِ حلال کے ساتھ کیا وابستگی ہوسکتی ہے؟ دس بارہ سال قبل جب عمران خان اپنی تقریروں اور ٹاک شوز میں راقم کی بہت تعریف و تحسین کیا کرتے تھے تو اُس وقت بھی لوگ جب پوچھتے تھے کہ’’عمران خان آپ کی اتنی تعریف  کرتا ہے۔

آپ بھی اسے اچھا لیڈر مانتے ہونگے؟‘‘  تب بھی اور اب بھی میرا جواب یہی ہے کہ’’جدید سیاست اور لیڈرشپ کے حوالے سے میرا معیار محمد علی جناحؒ ہیں …مالی اور اخلاقی طور پر بے داغ، حق گو، بااصول، مفاد اور مصلحتوں سے بالا اور اپنی بات اور وعدے پر چٹان کی طرح قائم رہنے والے‘‘ مجھے علم تھا کہ کچھ ناپسندیدہ سیاستدانوں کا امیج مسخ کرنے اور عمران خان کا امیج مسٹر کلین کے طور پر قائم کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور اسی منصوبے کے تحت اس تاثر کو فروغ دیا گیا کہ ’’کپتان میں اور خامیاں تو ہوسکتی ہیں مگر وہ ذاتی طور پر سو فیصد دیانتدار ہے‘‘

دیانتداری یا بددیانتی کسی ایک فعل کا نام نہیں ہے، یہ ایک سوچ، ایک کلچر اور ایک نظریہ ہے۔ ایک شخص رشوت وصول کرنے میں بے حد محتاط ہے اس لیے کبھی پکڑا نہیں گیا مگر اس کے قریبی دوست انتہائی مشکوک کردار کے ہیں، ایسا شخص ہرگز دیانتدار نہیں ہوسکتا ۔

ایک صوبے کے وزیرِاعلیٰ کو کسی نے ہاتھ سے رشوت وصول کرتے نہیں دیکھا مگر اس نے اپنے ذاتی اسٹاف میں انتہائی بری شہرت کے افسروں کو تعینات کررکھا ہے۔ کیا اُس کی سوچ اور کردار کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی نہیں ہے!

صاحبانِ دانش و حکمت نے درست کہا ہے کہ A man is known by the company he keeps.  ہر شخص اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔

یعنی کسی سیاسی لیڈر کی سوچ کا اندازہ آپ اس کے قریب ترین دوستوں اور اس کی کچن کیبنٹ کے ممبران سے لگا سکتے ہیں، اگر کوئی سیاستدان صحیح معنوں میں دیانتدار ہے تو اس کے قریب ترین دوستوں میں کوئی کرپٹ، حرام خور یا بدنام شخص ہو ہی نہیں سکتا۔

لیکن اگر کسی سیاستدان کے قریب ترین ساتھیوں میں زیادہ تر کرپشن میں ملوث اور حرام خوری کو برا نہ سمجھنے والے مشکوک کردار کے لوگ ہیں، تو وہ سیاستدان دیانتدار کیسے ہوسکتاہے؟ اور اگر وہ دیانتداری کا دعویٰ کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔

کسی آئی جی کی integrity کا اندازہ کرنا ہو تو دیکھیں کہ اس کے اپنے اسٹاف افسروں کی شہرت کیسی ہے، اس نے فیلڈ میں کس طرح کے افسر تعینات کروائے ہیں اور بدنام افسروں کے بارے میں اس کا رویہ کیسا ہے؟ راقم نے ضلعوں اور ڈویژنوں میں پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے کرپٹ اور بدنام افسروں کو کسی اہم جگہ پر نہ لگایا نہ لگنے دیا اور نہ رہنے دیا۔

اُن کے لیے بہت سے بااثر وزیروں اور ممبرانِ اسمبلی نے سفارشیں کیں مگر کوئی سفارش قبول نہ کی گئی۔

میں ان سفارشی وزراء سے کہا کرتا تھا کہ اگر میں عوام پر حرام خور افسر مسلط کردوں اور کھلی کچہریوں میں ایمانداری کے بھاشن دوں اور کرپشن کے خلاف تقریریں کروں تو لوگ میرا گریبان پکڑ کر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ ’’بند کرو یہ ڈرامہ! آپ کی ایمانداری پرتقریریں صرف منافقت ہیں‘‘ راقم کو ایک جگہ ڈی پی او کی کرپشن کا پتہ چلا تو فوراً وزیرِاعلیٰ سے ملنے ایئرپورٹ پر جا پہنچا اور کرپٹ افسرکو ہٹوا کر ہی گھر لَوٹا۔ آئی جی موٹروے مقرر ہوا تو پہلے ہفتے میں ہی پانچ سینئر افسروں (جنکی شہرت اچھی نہ تھی) کو تبدیل کرا دیا۔

اگر کوئی شخص واقعی ایماندار ہے تو اسے کرپشن سے نفرت ہو گی، وہ کسی کرپٹ شخص کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دے گا، وہ کسی بدنام افسر کو کسی اہم عہدے پر نہ کبھی تعینات کرے گا اور نہ اس کی تعیناتی برداشت کرے گا۔ اس ضمن میں عمران خان کے بارے میں ملنے والے تمام ثبوت اور شہادتیں اس کی ’’ایمانداری‘‘ کی نفی کرتی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کے قریب ترین دوستوں سے آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ اسے کس قسم کے لوگ پسند ہیں۔

اس کی تقریریں اور باتیں سن کر بیشمار لوگ اس سے متاثر ہوئے اور وہ اس کی پارٹی میں شامل بھی ہوئے مگر کوئی ایماندار اور باکردار شخص زیادہ عرصہ نہ گذارسکا۔ جسٹس وجیہہ الدین، اکبر ایس بابر اور حامد خان جیسے لوگ پیچھے دھکیل دیے گئے اور قریب ترین حلقے میں صرف مشکوک شہرت کے افراد رہ گئے۔

خان کے کچھ سادہ لوح اور اندھے پیروکار یہ بھی کہتے ہیں کہ اُسے پیسے سے کوئی دلچسپی یا پیار نہیں ہے۔ اگر اُسے پیسے سے پیار نہیں تو جہانگیر ترین ، علیم خان ، عارف نقوی اور ارب پتی تنویر الیاس اس کے قریب ترین کیسے ہوگئے۔

وہ ان سے کونسی حکمت ودانش کے سبق لیتا تھا؟، عمران کو اُنکے ہنر سے نہیں اُن کے مال سے پیار تھا اور ہے، جسٹس وجیہہ الدین کے بقول عمران اُن کے پیسے کو اپنی ذات کے لیے، اپنے گھر کے لیے، اپنے کچن کے لیے اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔

لاکھوں لوگوں نے عمران خان کو اسپتال اور یونیورسٹی کے لیے پیسے دیے مگر ان کے اپنے جنرل سیکریٹری اکبر ایس بابر جیسے دیانتدار شخص نے چیلنج کر دیا کہ اس پیسے کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

اگر عمران دیانتدار ہوتا تو اس کی سماعت رکوانے کے لیے مختلف حربے کیوں استعمال کرتا رہا؟ کئی سالوں بعد سماعت مکمل ہوئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ چیریٹی کے نام پر لیا گیا پیسہ غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور misappropriate  بھی ہوا ہے اور اب تو اس نے خود تسلیم کرلیا ہے۔ کیا چیریٹی کے لیے دیا جانے والا پیسہ رئیل اسٹیٹ میں جھونک دینے والا شخص ایماندار کہلاسکتا ہے؟

عمران خان صاحب دیانتدار ہوتے تو وہ پارٹی میں سے کسی دیانتدار اور باکردار شخص کو پنجاب کا وزیرِاعلیٰ بناتے۔ چلیں ان کے کچھ مشکوک شہرت کے فیملی فرینڈز نے بزدار کو وزیراعلیٰ بنوا دیا۔ مگر جب اس کی اپنی پارٹی کے لوگوں ، اُسکے بااعتماد ساتھیوں اور حتیٰ کہ فوج کے اعلیٰ ترین افسروں نے ان کے قریب ترین افراد کی کرپشن کے ثبوت دیے تو اس پر کارروائی کرنے کے بجائے وہ کرپشن میںملوث افراد کا دفاع اور سرپرستی کرتا رہا۔

کیا کوئی دیانتدار وزیراعظم ایسا کرسکتا تھا؟ میڈیا نے ان افسروں اور ضلعوں کے نام تک لکھ دیے جو کروڑوں روپے دے کر ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور ڈی پی او لگے تھے، عمران خان نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ۔ کیا کوئی ایماندار وزیراعظم اس طرح کی علی الا علان ہونے والی کرپشن اور لُوٹ مار پر چشم پوشی کرسکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔

عمران خان نے لفظ کرپشن کو لاکھوں مرتبہ استعمال کیا ہو گا مگر صرف سیاسی مقاصد کے لیے!۔ اس کی پونے چار سالہ وزارتِ عظمیٰ سے واضح ہوگیا کہ اسے کرپشن سے ذرا سی بھی نفرت نہیں ہے۔

اس کے درجنوں وزیروں اور مشیروں نے اربوں روپے لُوٹے مگر اُس نے سب کو تحفظ دیا۔ عمران خان نے بذاتِ خود پنجاب میں آئی جی سمیت اہم ترین عہدوں پر بدنام افسروں کو تعینات کردیا۔ اینٹی کرپشن کے محکمے کا سربراہ ایک گریڈ بائیس کا نیک نام افسر تھا۔

اسے ہٹا کر گریڈ بیس کے اس شخص کو لگادیا گیاجس کے اپنے خلاف مالی اور اخلاقی کرپشن کے کیس تھے۔ جو چند دیانتدار افسر فیلڈ میں لگے ہوئے تھے انھیں غلط اور غیر قانونی کام نہ کرنے پر ہٹا دیا گیا۔

عمرانی دور حرام خور افسروں کے لیے سنہری دور تھا جس میں کرپشن عروج پر تھی، مگر ایماندار اور باضمیر افسروں کے لیے صوبہ پنجاب ممنوعہ علاقہ بنادیا گیا تھا، اگر عمران خان دیانتدار ہے تو اس نے کرپشن میں ملوث ہونے والے اپنے وزیروں، مشیروں اور افسروں کو تحفظ کیوں دیا، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ اگر اسے پیسے سے پیار نہیں تو کیا۔

اس نے انتہائی قریبی دوست ملک کے بادشاہ کی تحفے میں دی گئی بے مثل گھڑی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بیچ دی تھی؟ اُس نے گھڑی کی کم assessment  کرائی۔ اُس نے قانون توڑا اور 50% قومی خزانے میں جمع نہ کراکے بددیانتی کا ارتکاب کیا اور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ اُس نے کسٹمز ڈیوٹی ادا کیے بغیر انتہائی قیمتی گھڑی باہر بھیج دی۔

وہاں سے 28 کروڑ روپے واپس منگوائے اور کسٹمز کوپھر cheat کیااور قومی خزانے کو کروڑوں روپے نقصان پہنچایا۔ پھر ایک بند لفافہ لہرا کر، اصل بات کابینہ سے چھپا کر اور جعلی منظوری لے کر قومی خزانے کے اربوں روپے ایک مہربان کو دے دیے گئے، کیا کوئی ایماندار وزیراعظم ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے ؟  اگر اب بھی عمران خان کے پیروکار اسے ایماندار سمجھتے ہیں تو یہ ایمانداری کی کوئی وکھری قسم ہے جو اس سے پہلے نہ دیکھی ہے نہ سنی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔