سارک؛ ارباب اختیار سے ایک درخواست

زاہدہ حنا  بدھ 25 جنوری 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

میں غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئی، پاکستان میرا ملک ہے، بنگلہ دیش سے تہذہبی رشتے ہیں۔

بچپن سری لنکا کے ریڈیو سیلون سے سہگل اور سی ایچ آتما ، لتا، رفیع اور مکیش کی سنہری آوازوں کو سنتے گزرا اور جغرافیے کی کتاب میں جب پہلی مرتبہ سری لنکا کو دیکھا تو یوں محسوس ہوا تھا جیسے برصغیر کے کان کا دُر ہے جو بحر ہند کے نیلے پانیوں میں جگمگاتا ہے اور انھی پانیوں کی لہریں مالدیپ کے ساحلوں پر سچے موتیوں کی پرورش کرتی ہیں۔

اسی طرح نیپال کو لیجیے تو وہ برصغیر سے اس طرح پیوست ہے کہ وہاں پیدا ہونے والے سدھارتھ کو نروان بہار کے شہر ’’گیا‘‘ میں ملتا ہے اور 1857 میں لکھنؤ کی حضرت محل اور اس کے جاں نثار فرنگیوں کی فوج سے لڑتے ہوئے نیپال کے جنگلوں میں پناہ لیتے ہیں اور پھر ان ہی جنگلوں میں یوں کھوئے جاتے ہیں کہ ان کی قبروں کا بھی نشان نہیں ملتا ، بس ان کی بہادری ، ان کے بانکپن کی داستانیں رہ جاتی ہیں۔

اسی طرح بھوٹان ہے، وہ بھی ہندوستان اور نیپال سے یوں جڑا ہوا ہے جیسے ایک ہی کنبے، ایک ہی کٹم کا معاملہ ہو۔

میں اس حوالے سے سارک کو دیکھتی ہوں جو بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا پر مشتمل ہے۔ جنوبی ایشیا میں علاقائی تنظیم بنانے کی تجویز بنگلہ دیش نے پیش کی تھی، چنانچہ سارک ملکوں کا پہلا سربراہی اجلاس دسمبر 1985میں بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں منعقد ہوا تھا۔

اس اجلاس میں سارک کا چارٹر منظورکیا گیا جو 10 آرٹیکل پر مشتمل ہے۔ اس چارٹر کے ابتدائیہ میں تمام سربراہان مملکت نے عہد کیا کہ وہ اس خطے میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کی خواہش رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور اور غیر وابستہ تنظیم کے اصولوں کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں۔

سربراہان مملکت نے اس امر پر بھی اتفاق کیا تھا کہ تمام رکن ملکوں کو برابر کا درجہ حاصل ہوگا۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور تمام متنازعہ امورکو طاقت کے بجائے پر امن ذرایع سے حل کیا جائے گا۔

تمام رکن ملکوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے گا ، سماجی انصاف اور معاشی ترقی کے لیے مل جل کر کام کیا جائے گا۔ تمام سربراہان مملکت اس بات پر بھی متفق تھے کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کے درمیان باہمی تعاون بہت ضروری ہے کیونکہ صرف اسی طرح خطے میں رہنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

اس تعاون کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ سارک تنظیم میں شامل ملک ایک دوسرے کے ساتھ معاشی، سماجی اور فنی تعاون کو فروغ دیں۔

سارک چارٹر کے ابتدایے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام رکن ممالک نے ایک دوسرے کے درمیان رابطوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے پر اصرار کیا تھا کیونکہ اس عمل کے ذریعے جنوبی ایشیا کے عوام میں دوستی اور مفاہمت کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔

سارک چارٹر کے پہلے آرٹیکل میں تنظیم کے مقاصد کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے پہلے نکتے میں عہد کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگوں کی فلاح کے لیے کام کیا جائے گا۔ ان کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے گا، معاشی ترقی کے عمل کو تیز کیا جائے گا اور خطے میں سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔

سارک کی سرگرمیوں میں (Integrated Program of Action )IPA کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس پروگرام کے تحت جن گیارہ شعبوں کا انتخاب کیا گیا ہے ، ان میں زراعت ، مواصلات ، تعلیم و ثقافت ، سیاحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبے بھی شامل ہیں۔

سارک تنظیم میں شامل ملکوں نے SAPTA یعنی South Asian Free Trade Area نامی ایک معاشی بلاک بنانے پر بھی اصولی طور پر اتفاق کیا ہے لیکن اس معاہدے کو اب تک عملی شکل نہیں دی گئی ہے۔ دوسرے سارک سربراہ اجلاس میں رکن ملکوں کے عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کا عہد کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے بعد ازاں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ رکن ممالک سفری مسائل کو حل کریں گے اور ویزے کی پابندیوں کو ختم کیا جائے گا۔

سارک چارٹر کے مذکورہ بالا بنیادی نکات کا مختصر حوالہ اس امرکوظاہر کرتا ہے کہ سارک چارٹر میں جنوبی ایشیا کے عوام میں باہمی تعاون اور رابطوں کے فروغ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں اضافے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

لیکن یہ امر بڑا تکلیف دہ ہے کہ ان شعبوں میں زیادہ بامعنی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور People to People Contact کے تحت صرف منتخب اور محدود افراد کے گروپ ہندوستان اور پاکستان کا دورہ کیا کرتے تھے جس کا سلسلہ اب بھی رکا ہوا ہے۔

اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہندوستان اور پاکستان سارک کے دو بڑے اور اہم رکن ملک ہیں۔ ان دونوں ملکوں نے سارک چارٹر پر دستخط کیے ہیں لیکن یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ دونوں ملک اپنے شہریوں کو مطلوبہ سفری اور ویزا کی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ان دونوں ملکوں میں کروڑوں افراد منقسم خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے جس کو سارک چارٹر کے اصولوں کے تحت بہت پہلے حل ہو جانا چاہیے تھا۔ ایک وقت تھا کہ کراچی اور بمبئی میں دونوں ملکوں کے قونصلیٹ موجود تھے ، اب یہ قونصلیٹ بند پڑے ہیں۔

جب دونوں ملکوں کے درمیان سفر ممکن تھا تو کراچی اور سندھ کے لوگوں کو ویزا کے حصول کے لیے اسلام آباد جانا پڑتا تھا جب کہ ہندوستان سے پاکستان آنے والے افراد کو ویزا لینے کی خاطر دہلی کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح محض ویزا حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ہزاروں روپے اور کم از کم آٹھ دن خرچ کرنے پڑتے تھے۔

اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے بعد لوگ واپس اپنے گھروں کو آتے ہیں اور وہاں سے انھیں دوبارہ طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔ 1965ء کی جنگ سے پہلے لاہور اور کھوکھراپار کے ذریعے عوام کو سفری سہولتیں حاصل تھیں، اب دونوں ملکوں کے افراد صرف واہگہ اور اٹاری کے ذریعے ایک دوسرے کے ملکوں میں جانے پر مجبور ہیں۔

اس مسئلے کو سارک کے اصولوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔ ہندوستان اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کو سفر کی وہی سہولتیں مہیا کریں جو وہ دیگر رکن ملکوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کو سیاسی نہیں بلکہ انسانی نقطہ نظر سے غور کرنا چاہیے۔ جو تنظیمیں اور افراد اس مسئلے کے لیے کوشاں ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو محدود تناظر میں اجاگر نہ کریں بلکہ اسے ایک انسانی مسئلے کے طور پر عوام کے سامنے لائیں۔

سارک انگریزی میں لکھا ہوا ہو تو ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن کا مخفف ہے لیکن اسے اردو میں لکھ کر دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلامتی، امن، رواداری اور کامرانی کے پہلے حروف کو جوڑ کر ایک لفظ بنایا گیا ہے۔

جنوبی ایشیا کے یہ ممالک سیاسی اعتبار سے خواہ کتنے ہی دور ہوں لیکن تاریخی تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور نسلی اعتبار سے ایک دوسرے سے یوں جڑے ہوئے ہیں کہ تنوع میں ایک عجب یکجائی ہے۔

ہمارے پہاڑ، ہمارے دریا، ہمارے موسم، ہماری ہوائیں اور ہماری فضائیں ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھتی ہیں۔ سارک ملکوں کی دوستی اور اتحاد ہمیں دنیا کی اور علاقے کی ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے لاسکتی ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پورے خطے کے عوام اپنے خطے میں امن اور اعتماد کی وہ فضا دیکھنا چاہتے ہیں جو انھیں ان تمام ملکوں میں سفر، تجارت، کتابوں اور اخباروں کے آزادانہ تبادلے کی سہولتیں مہیا کر سکے۔

پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سارک میں شامل تین بڑے ممالک ہیں۔ ان کے درمیان بہتر تعلقات کے بعد ہی سارک ایک فعال علاقائی تنظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے باہمی اختلافات ختم ہوں پھر سارک کو سر گرم کیا جائے اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سارک کو جس حد تک ممکن ہو فعال کر کے دیرینہ تنازعات اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔

دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے خطوں میں علاقائی تنظیمیں بنا کر دیرپا امن اور باہمی تجارت کو فروغ دے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ارباب اختیار کو سارک تنظیم کو بتدریج فعال کرنے کے معاملے پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔