نقیب اللہ، راؤ انوار اور عدم ثبوت کی کہانی

نواز حسین عسکری  جمعرات 26 جنوری 2023
پاکستان میں جرم تو صرف غریب اور کمزور کرتا ہے، بااثر افراد پر تو محض الزام لگایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں جرم تو صرف غریب اور کمزور کرتا ہے، بااثر افراد پر تو محض الزام لگایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

جنوری 2018 میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو اس کے تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں کراچی میں مار دیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان کا تعلق کسی دہشتگرد تنظیم یعنی داعش یا لشکر جھنگوی سے تھا۔

نقیب اللہ کے اہل خانہ اور دیگر سماجی حلقوں نے پولیس مقابلے پر تشویش کا اظہار کیا اور یوں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے نقیب اللہ پر دہشتگردی کے الزامات اس بنیاد پر ختم کردیے کہ مقتول کے سوشل میڈیا پروفائل سے پتہ چلتا ہے وہ ایک فن سے محبت کرنے والا اور ماڈل بننے کا شوقین جوان تھا اور یہ کہ اس کے قبضے سے کوئی اسلحہ بھی نہیں نکلا۔

لیکن 23 جنوری 2023 کو عدالت نے راؤ انوار اور ان کے دیگر ساتھیوں کو یہ کہہ کر بری کردیا کہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا مگر استغاثہ یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ملزمان موقع پر موجود تھے۔ سو عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا۔ مگر پھر یہ قتل کس نے کیا؟ اگر پولیس مقابلہ جعلی تھا اور یہ قتل ہی تھا تو کوئی تو قاتل ہوگا؟

پاکستان میں عدم ثبوت پر ہائی پروفائل ’’ملزمان‘‘ کی باعزت رہائی کا یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں۔ جون 2017 میں کوئٹہ کے جی پی او چوک میں عنایت اللہ نامی ٹریفک پولیس اہلکار کو گاڑی نے کچل دیا تھا۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے معلوم ہوا کہ گاڑی بلوچستان کے رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی کی ہے۔ مجید خان اچکزئی کو گرفتار بھی کیا گیا اور عدالت میں کیس بھی چلتا رہا۔ لیکن بعد کی عدالتی کارروائی سے پتہ چلا کہ استغاثہ یہ ثابت نہیں کرسکا کہ گاڑی مجید اچکزئی ہی چلا رہے تھے اور عدم ثبوت کی بنیاد پر یہ ممبر اسمبلی بھی ستمبر 2020 میں باعزت بری ہوگئے۔ ہوسکتا ہے گاڑی چوری ہوگئی ہو اور اس کی ایف آئی آر بھی ہو، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گاڑی کوئی اور چلا رہا ہو، وغیرہ وغیرہ۔

بالکل اسی طرح صدیق کانجو کے بیٹے مصطفیٰ کانجو کو بھی عدالت نے شواہد کے نہ ہونے پر رہا کردیا تھا، جبکہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کے جھگڑے میں فائرنگ کی گئی اور زین نامی اک جواں سال یتیم مارا گیا تھا۔

شاہ زیب خان قتل کیس، سانحہ ساہیوال اور دیگر درجنوں واقعات ہیں جس میں ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیے جاتے ہیں یا پھر گرفت میں ہی نہیں آتے۔ عدالت، استغاثہ، عوام، حکمران اور دیگر لوگ جانتے ہیں کہ ثبوت عدم کیسے ہوئے؟ عدالت اور جج بھی کاغذات، شواہد اور گواہوں کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرتے ہیں لیکن قاتل یا مجرم جرم کے بعد کدھر غائب ہوجاتے ہیں؟ وہ اپنے کیے پر ثبوت کیوں نہیں چھوڑتے؟ حالانکہ دنیا کی ماہر ترین خفیہ ایجنسیاں بھی اپنے خلاف کوئی نہ کوئی ثبوت چھوڑ ہی جاتی ہیں۔

چلیے ملزم رہا ہوگیا لیکن جرم تو ہوا ہے تو پھر قتل کس نے کیا؟ اس کےلیے کیا مقتول خود اٹھ کر آئے گا؟ اگر ’’ملزم‘‘ مجرم نہیں تو مجرم کو ڈھونڈنے کا کام کس کا ہے؟ کیا یہ کام لواحقین اور مقتول کا ہے؟ عدلیہ، پولیس اور دیگر ادارے کس لیے ہیں؟ اگر گواہ بھاگ جاتے ہیں تو ان کو ڈراتا کون ہے؟ اگر کوئی ڈراتا ہے تو خوف سے حفاظت کرنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ اور اگر مدعی صلح کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں؟ اگر عدلیہ اور پولیس اتنے بااختیار ہونے کے باوجود یہ دباؤ برداشت نہیں کرسکتے تو عام شہری تو اسی میں بھلا جانے گا کہ خون جلانے سے بہتر خون بہا لینا ہی ہے۔

آج سے کچھ عرصہ قبل ایک کالم نگار نے اپنے کالم میں یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنے جیلر دوست کے توسط سے ایک جیل کا سروے کرکے قیدیوں کے انٹرویو لیے۔ یہ قیدی جیب تراشی سے لے کر چوری تک اور زنا بالجبر سے کر قتل تک مختلف جرائم میں پابند سلاسل تھے۔ ان کے اس سروے کا مقصد تو شاید قیدیوں کے حالات جاننا تھا مگر انہوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان میں جرم امیر اور صاحب حیثیت شخص نہیں کرتا بلکہ صرف غریب اور کمزور کرتا ہے یا وہ کمہار، موچی، نائی، جولاہا یا ان کے اردگرد کے لوگ کرتے ہیں، جبکہ کوِئی بھی بڑا زمیندار، بڑا کاروباری شخص، بڑا سرکاری افسر، سیاست دان یا ٹوانہ، وٹو، لغاری، مزاری، زرداری وغیرہ نہیں کرتے۔

ان شخصیات پر صرف جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے جو ان کے مخالفین ان کے عہدے، طاقت اور پیسے سے حسد کے نتیجے میں ان پر لگاتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین الیکشن جیتنے کےلیے لگاتے ہیں۔ اور ان کی سب آڈیوز اور ویڈیوز ڈیپ فیک سے بنتی ہیں۔ اس لیے وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہتے ہیں، جہاں انھیں دوسرے قیدیوں سے قدرے بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جہاں ان کو علاج معالجے کےلیے بہترین ڈاکٹر تک کی فراہمی ہوتی ہے اور کبھی تو اسپتال کا کمرہ ہی جیل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور آخر میں ’’انصاف کی جیت ہوئی‘‘ یا ’’عدالتیں انصاف کرتی ہیں‘‘ یا ’’مخالفین کو اللہ نے رسوا کیا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے یہ لوگ عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری ہوجاتے ہیں۔

نظام انصاف کی یہ صورتحال اور قانونی اسقام ثابت کرتے ہیں کہ جب تک قانون کو بلاتفریق امیر و غریب، سب پر یکساں لاگو نہیں کیا جاتا، بااثر افراد کی ’’عدم ثبوت‘‘ پر رہائی کا یہ چکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔