بھارتی یلغار جاری ہے

عبدالقادر حسن  منگل 8 اپريل 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

واہگہ سے آخری خبریں آنے تک بھارت اور پاکستان کے درمیان حائل دیوار ابھی باقی تھی جو اینٹ بجری یا کسی دوسرے ایسے مضبوط سامان سے بنائی گئی ہے کہ مسلسل حملوں کے باوجود ابھی تک سلامت ہے لیکن وہ دیوار جو محمد علی جناح (اجازت ہو تو قائد اعظم بھی کہہ دوں) نے برصغیر کے مسلمانوں کی صدیوں پرانی خواہش کے جواب میں یہاں بسنے والی مسلمان قوم کے ذہنوں اور دلوں میں تعمیر کی تھی رفتہ رفتہ اس کی اینٹیں نکالنے کی کوشش جاری ہے۔ ان دنوں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے میں ٹی وی سے زیادہ موبائل ٹیلی فون پر خبریں اور تصویریں دیکھ رہا ہوں جن کو دیکھ کر کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ میرا موبائل پاکستانی ہے یا بھارتی بلکہ بھارتی زیادہ لگتا ہے کیونکہ اس پر میک اپ سے حسین بنائی گئی جن عورتوں کی تصویریں اکثر دکھائی جاتی ہیں وہ بھارتی فلموں کی ہیں۔ ان کے نام اور لباس میری سمجھ میں نہیں آتے البتہ لباس کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ بذات خود کوئی لباس نہیں ہوتا ایک باریک سا پردہ ہوتا ہے جو غیر ضروری لگتا ہے لیکن اس میں بھی کچھ راز ہوتے ہیں جن کی جستجو مردوں کی پرانی عادت اور مجبوری ہوتی ہے اور اسی لیے یہ لباس نسوانی جسم کو اجاگر اور برملا کرنے کے لیے بہت مناسب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھارتی عورتیں اور ان کے ساتھ وابستہ کہانیاں واہگہ بارڈر کے اس پار یعنی پاکستانی حصے میں مقبول ہیں۔ مقبول اس لیے کہ ہمارے پاس اپنی فلمیں اب باقی نہیں رہی ہیں بلکہ اب تو ہم ان ٹی وی ڈراموں سے بھی محروم ہو گئے ہیں جو بھارت میں ٹریفک بند کرا دیا کرتے تھے۔ جب آپ پوری دنیا سے الگ تھلگ ہو کر فلم تک نہیں بنائیں گے تو ہمارے نوجوان اور عام شہری اپنی تفریح کے لیے بھارتی فلموں کا سہارا نہیں لیں گے تو کیا کریں گے۔ انھیں اپنی تفریح کی فطری خواہش پوری کرنی ہے اور بھارتی فلموں کی زبان وغیرہ ہمارے لیے اجنبی نہیں ہے۔

سونیا گاندھی کی یہ بات میں پہلے بھی کئی بار نقل کر چکا ہوں کہ آپ پاکستان سے بے فکر ہو جائیں اس کے لیے ہماری فلمیں ہی کافی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کو شکست دینے اور ختم کرنے کے لیے ہماری فلم انڈسٹری ایک فوج سمجھیں۔ ہمارے سابق صدر جناب آصف علی زرداری صاحب نے اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ ہر پاکستانی کے دل میں آدھا بھارتی ہے اور ہر بھارتی کے دل میں آدھا پاکستانی۔  یہ درست ہے مگر بھارتیوں کے دلوں میں پاکستانی کیسا ہے ایک قابل نفرت مخلوق ہے اور شریمتی سونیا گاندھی کی مذکورہ بات سے بہت بعد آج بھارت کے سینئر صحافی جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پاکستان کا تو ذکر ہی نہ کریں کیونکہ ان کے سامنے آج کا پاکستان جس طرح موجود ہے اسے وہ اب پرکاہ کی اہمیت بھی نہیں دیتے۔ بھارت کے صحافیوں کی یہ رائے ذرا پرانی ہے مگر صدر زرداری کے ارشاد کے بعد کی اور جناب میاں نواز شریف کی بے تابیوں کے بھی بعد کی بھارتی رائے اب زیادہ توہین آمیز ہو چکی ہو گی۔ میرا ایک نواسہ محنت کرکے امریکا کے ایک تعلیمی ادارے کی اسکالر شپ لینے میں کامیاب ہو گیا وہ گزشتہ دنوں چھٹیوں پر آیا تو میں نے ہی اسے مشورہ دیا کہ بور نہ ہو اور دوستوں کو لے کر کوئی فلم دیکھ آئے۔ فلم دیکھنے کے بعد وہ کہنے لگا کہ اب میں کسی پاکستانی دوست کے ساتھ بھارتی فلم نہیں دیکھوں گا۔ حیرت ہے کہ اس قدر فحش فلمیں ہم کیوں دکھاتے ہیں اور سنسر بورڈ کہاں ہے۔ ہمارے ایک مہربان اور بزرگ جناب مجید نظامی کہتے ہیں کہ میں بھارت جاؤں گا مگر ٹینک پر بیٹھ کر لیکن ان کے پرانے دوست پلکوں کے بل چل کر بھارت جانے کو بے تاب ہیں۔ نظامی صاحب اپنے سفر کے لیے ٹینک تلاش کرتے رہیں۔

صحیح یا غلط ہم اب تو بھارتیوں کے لیے ناقابل ذکر ہو چکے ہیں لیکن جب قابل ذکر تھے تب بھی جنگوں سے نہ ہمیں کچھ ملا نہ بھارتیوں کو اس لیے پاکستان کے لیے جنگ تو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے الہ یہ کہ پھر کبھی بھارتی ہم پر جنگ ٹھونس دیں پھر وہ اس گئے گزرے پاکستان کے ہاتھوں اپنا تماشا دیکھیں گے لیکن یہ نوبت نہ ہی آئے تو دونوں کی خیریت اسی میں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ یہاں کے مسلمان اپنی تہذیب اور نظریات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ ایک مسلمان پاکستانی کسی ہندو بھارتی کے لیے کس حد تک ناقابل برداشت ہے اس کا تجربہ صرف ان سے میل جول سے ہی ہو سکتا ہے۔ میں نے ہندوؤں اور ان کے خاندان کے ساتھ رابطوں میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ جن لوگوں نے ہندو کی رسوئی میں قدم رکھ کر دیکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں کسی کتے کے باورچی خانے میں آ جانے سے جو ہوتا ہے وہی ہندوؤں کی رسوئی میں کسی مسلمان کے داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ دونوں قومیں ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہیں اور کتنی دور ہیں اس کا اگر کوئی پرانے زمانے کا بزرگ زندہ ہے تو آپ اس سے پوچھ سکتے ہیں۔ دنیا کی دو قوموں میں کسی بھی جگہ اس قدر دوری کا تصور بھی ممکن نہیں مسلمان اور یہودی بھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں مگر ہندو اور مسلمان نہیں۔ دونوں قوموں کی ذہنی ساخت اور مدت مدیر کی ہمسائیگی نے ان پر سب کچھ واضح کر دیا ہے۔

سرزمین ہندوستان میں تو دونوں قوموں کے درمیان مغائرت کا ایک اعلان بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اور بھارت کے شاہی خاندان کی وارث اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر صاف الفاظ میں کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک ہندوؤں پر جو حکومت کی تھی انھوں نے سقوط ڈھاکہ یعنی پاکستان کے ٹوٹنے کو اس کا بدلہ قرار دیا اور صحیح قرار دیا تھا کہ ہم نے پاکستان بنایا اور اس کو خود ہی اس قدر کمزور کر دیا کہ وہ بھارت کی تخریب کاری کو برداشت نہ کر سکا اور جب بات بہت بڑھ گئی تو بھارت نے فوجی مداخلت کر کے قصہ ہی تمام کر دیا۔ اس وقت مجھے اپنے فوجی اور غیر فوجی سیاسی لیڈر یاد آ رہے ہیں اور میں اپنا ماتم کر رہا ہوں۔ بات بھارت کی تہذیبی یلغار سے شروع ہوئی تھی بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان اسٹائل کی تخریب کاری پھر جاری ہے اور اس میں اب ثقافتی حملہ بھی شامل ہے جو ہاتھوں کو نہیں  دلوں اور ذہنوں کو کمزور کر دیتا ہے لیکن کیا ہم بھارت کے ساتھ کاروبار میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں مگر کم عقل اور کم ہمت لوگوں کی یہ باتیں پرے جھٹک دیجیے اور بھارتی فلمیں دیکھتے اور واہگہ بارڈر کی حدود کی دیوار سے اینٹیں نکالنی جاری رکھیے۔ نئے حکمرانوں کا فلسفہ یہی ہے۔ انھیں صرف بھارتی الیکشن کا انتظار ہے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔