مسخرے اور کھلاڑی

طلعت حسین  منگل 8 اپريل 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

سری لنکا کی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت کر یہ ثابت کر دیا کہ محنت اور حقیقی جذبے کا نہ تو کوئی توڑ ہے اور نہ ہی نعم البدل۔ یہ وہ ٹورنامنٹ تھا جس نے کئی ہفتے دنیا کو اور بالخصوص پاکستان میں عوام کو اپنے جادو میں جکڑے رکھا۔ ہر کوئی یہ ٹرافی جیتنے کے لیے کھیل رہا تھا مگر یہ نصیب اُس کا بنی جس نے سب سے اچھی کاوش کی تھی۔ فائنل سے پہلے کاغذ پر ہندوستان کے کھلاڑی دیو قامت لگ رہے تھے ،کارکردگی دیکھیں تو یہی لگتا تھا کہ سری لنکا، ہندوستان کی طوفانی بلے بازی کے سامنے ڈھیر ہو جائیگا۔ چونکہ ذرایع ابلاغ کھیل کی نفسیات کا حصہ بن گئے ہیں لہٰذا اشاعت شدہ مواد سب کا سب دھونی کی ٹیم کو نمبر ون قرار دے رہا تھا۔ مگر کسی نے یہ نہیں سوچا تھاکہ سری لنکا کی ٹیم میں بعض کھلاڑی اپنے ملک اور اپنی ساری زندگی کی کمائی کی عزت بچانے کے لیے اپنی ڈھلتی ہوئی عمروں کو شکست دے کر ہندوستان کا راستہ روک دیں گے۔ سنگا کارا جو اس ٹورنامنٹ سے پہلے بلاشبہ دنیا کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہونے کا سو فیصد حق رکھتا تھا، کل پچاس رنز کی سیڑھی پر چڑھ کر وہاں پہنچ گیا جہاں کھلاڑی افسانوی کردار کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ سری لنکا کی جیت میں لائحہ عمل اور سر دھڑ کی بازی لگانے کا عزم دونوں موجود تھے۔ جذبہ سے مراد شاباش شاباش یا کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں کی کرخت آوازیں لگانا نہیں ہے۔ نا ہی خواہ مخواہ چھلانگیں لگا کر غیر ضروری توانائی کا صرف کرنا ہے۔ سنجیدہ جذبہ، شکل، نظر، اور میدان میں چلنے پھرنے کے عام انداز سے ظاہر ہو جاتا ہے مگر اس کا صحیح ثبوت کارکردگی ہے۔

جس طرح سری لنکا نے آخری چار اووروں میں ہندوستان کو نتھ ڈال دی ایسی کارکردگی صادق جذبہ کی صحیح نمایندگی کرتی ہے۔ کل ہم نے میچ جیتنے کے بعد سری لنکا کی ٹیم کا وہ پہلو بھی دیکھا جس کو باہمی دوستی کہا جاتا ہے۔ جس طرح تمام چھوٹے اور بڑے کھلاڑی ایک دوسری کے ساتھ مل جل کر خوشیاںمنانے میںمصروف تھے اس سے پتا چلتا تھا کے ٹیم میں کتنی یکجہتی ہے اور پھر ہر کوئی دوسرے کو کامیابی کا تاج پہنا رہا تھا ۔ کوئی گردن اکڑا کر ہزاروں لوگوں کے سامنے یہ بیوقوفانہ دعویٰ نہیں کر رہا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ بڑے کھلاڑی کارکردگی سے بڑھ کر کردار سے پہچانے جاتے ہیں۔ غرور سے تنے ہوئے سینے‘ خود پرستی میں ڈوبے ہوئے ذہن جیت کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ کل ہم نے سنگا کارا، جئے وردنے، دلشان، میتھیوز اور ملنگا سب کو اپنے بہترین کردار میں دیکھا کوئی بھی خوشی میں اپنے بارے میں بڑھکیں نہیں مار رہا تھا، سب اس ٹرافی کو ملک کے نام کر رہے تھے۔ یہ اچھے شہری ہونے کی نشانی ہے۔ وہ جس تھالی سے کھاتے ہیں اس کا بھرم رکھتے ہیں اس میں چھید نہیں کرتے۔ سری لنکا کی یہ جیت ہر شعبہ میں اچھے کھلاڑیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جب ہر طرف پیسے اور دھندے کی باتیں ہو رہی ہوں، میچ بکنے کے الزامات لگ رہے ہوں اور انڈین پریمئر لیگ جیسے سٹے کے بین الا قوامی میلے لگے ہوں تو اس دھندے میں گمراہ نہ ہو جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔  سری لنکا کی ٹیم نے کل محنت کرنے والے حلالی کھلاڑیوں کو  بتلایا ہے کہ جیت کے لیے ایک ہی مستند راستہ ہے جو محنت کے بغیر عبور نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ بہترین کھلاڑی بننے کے لیے شیمپو کیے ہوئے بال، رنگ برنگی عینکیں اور عجیب و غریب بال بنانے کی ضرورت نہیں اچھا کھلاڑی اچھے سپاہی کی طرح ہے دونوں پسینے میں شرابور ہو کر ہی بہترین لگتے ہیں۔

ہم نے سری لنکا کی اس جیت سے کیا سیکھا ہو گا؟ یقیناً کچھ نہیں۔ سیکھنے کے لیے عقل ہی نہیں تھوڑے سے ایمان کی بھی ضرورت ہے۔ اس ملک میں کھیلوں کا انتظام جن بد دیانتوں کے ہاتھ میں ہے، ان سے کسی اچھائی کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی کنڈے لگا کر ان اٹھائی گیروں نے کرکٹ کو اپنے پنجوں میں ایسے پھنسا لیا ہے کہ اس میں سے زندگی کی رمق ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان الووں کے نیچے انھی جیسے پٹھے پنپیں گے۔ جیسی روح ویسے فرشتے، جیسا منہ ویسی  چپیڑ جیسے کرکٹ چلانے والے ویسے ہی کرکٹرز۔ پاکستان میں کرکٹ اور دوسرے کھیل اس قومی توانائی کا باعث بن سکتے ہیں جو دوسری اقوام اپنی بہترین کارکردگی کے ذریعے کھیل کے میدانوں سے حاصل کرتی ہیں، مگر چونکہ یہ جونکوں کے جھنڈ کے نیچے دب گیا ہے لہذا اس سے عبرت اور شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔ اگر ہم سیکھنا چاہیں تو کل کے میچ سے بہت سے سبق لے سکتے ہیں۔ہمارے اشتہار باز کھلاڑی جب تک اپنی اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے کبھی اس معیار تک نہیں آ سکیںگے جہاں ان کی طرف دیکھ کر لوگ ذہنی آسودگی اور اطمینان حاصل کریں۔ کرکٹ میں گینگ اور پیسے نے جو تباہی پھیلائی ہے اس کا نتیجہ ہم ہر دوسرے مہینے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ظاہراً جن لوگوں کا کام کھیلنا ہے(اور صرف کھیلنا ہے) وہ بڑے میچوں میں ذہنی  معذوروں کی طرح تکنیکی سوچ سے مکمل طور پر عاری نظر آتے ہیں۔ پھر کھیل اور قوم کی لاج پر لاتیں مارنے کے بعد شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ایسے فضول ہاتھوں میں ٹرافی بھی اچھی نہیں لگتی۔ جو ٹیمیں اپنے لیے کھیلتی ہیں وہ میدان میں جمی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جن کو اپنے قومی ترانوں کے بول یاد ہوتے ہیں ان کے لب ترانے کی دھن کے ساتھ ہلتے ہیں۔ محض دل پر ہاتھ رکھ کر بازؤوں کو جھٹکنے سے کوئی کھلاڑی وطن کی محبت سے سرشار نہیں ہو جاتا۔ سرشار وہی ہوتا ہے جو محنت کو اپنا فرض جانتا ہے مسخروں اور کھلاڑیوں میں بڑا فرق ہے۔ سری لنکا کی ٹیم نے کل یہ فرق مزید واضح کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔