کیا یہ حقیقی عوامی نمایندگی ہے؟

محمد سعید آرائیں  جمعرات 26 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

روزنامہ ایکسپریس کے مطابق حالیہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے دو خوش نصیب کونسلر ایسے بھی ہیں جنھوں نے صرف 31 اور 59 ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ ضلع وسطی کے نارتھ ناظم آباد ٹاؤن 1846ووٹ لینے والا ایک امیدوار بمشکل کونسلر بن سکا ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا ٹرن آؤٹ مایوس کن رہا۔ ضلع وسطی میں صرف 14فیصد، ضلع جنوبی میں 19فیصد ووٹ پڑے۔ ضلع ملیر میں30 فیصد اور ضلع شرقی میں صرف 18فیصد ووٹ پڑے اور خواتین کے ووٹ کی شرح بیس فیصد ریکارڈ کی گئی۔

بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم نے اعلیٰ عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں شنوائی نہ ہونے پر بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس بائیکاٹ کا زیادہ اثر شہری یوسیز میں ہوا جہاں نوے ہزار ووٹوں پر مشتمل یوسیز بنائی گئیں۔

ان یوسیز میں ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے حامی زیادہ تھے مگر ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے لوگ گھروں میں ہی رہے اور شہری یوسیز میں ٹرن آؤٹ کم اور مایوس کن رہا۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے سندھ میں ساڑھے 14سالوں سے حکمران پیپلز پارٹی پر شدید دھاندلی کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حامیوں اور دیہی علاقوں کے اضلاع ملیر اور کیماڑی میں پی پی کے حامیوں نے باہر نکل کر ووٹ کاسٹ کیے جن میں خواتین کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ان علاقوں کے لوگوں کو سندھ حکومت نے ترجیح دے کر بنیادی اور بلدیاتی سہولیات بھی فراہم کی ہیں۔

سندھ حکومت نے کراچی کو ترجیح بہت تاخیر سے دی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے گزشتہ سال اپنے مشیر مرتضیٰ وہاب کو سرکاری ایڈمنسٹریٹر کی جگہ مقرر کیا تھا اور اس سیاسی ایڈمنسٹریٹر کی تقرری پر سیاسی اعتراضات بھی ہوئے تھے اور بعد میں انھیں چند ماہ بعد ہٹا کر ایم کیو ایم کی خوشنودی کے لیے ایک سرکاری افسر کا تقرر کردیا تھا۔

بلدیہ عظمی کراچی کی میئر شپ حاصل کرنے کے لیے پی پی کی سندھ حکومت نے سالوں پہلے تیاری شروع کردی تھی جب کہ ایم کیو ایم اپنا چوتھا میئر لانا چاہتی تھی اور جماعت بھی چوتھی بار اپنا میئر لانے کی کافی عرصہ پہلے سے انتخابی مہم چلارہی تھی جب کہ پی ٹی آئی بھی اپنا میئر لانے کے مسلسل دعوے کررہی تھی جب کہ عمران خان نے اپنے دور میں کراچی والوں سے صرف دعوے کیے تھے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا تھا ، پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو ملنے والے فنڈ تو کم ہی کراچی میں لگتے نظر آئے کیوں کہ اکثر ان علاقوں میں رہتے ہی نہیں تھے اس لیے وہ فنڈ اقربا پروری کی نذر ہوگئے۔

2001 کے جنرل پرویز کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے نظام کا متحدہ نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی نے اپنا سٹی ناظم منتخب کرالیا تھا حالاں کہ اس وقت متحدہ طاقت میں تھی مگر بائیکاٹ کی غلطی کر بیٹھی تھی جس کا کوئی جواز نہیں تھا اور اس بار ایم کیو ایم نے غلط حلقہ بندیوں اور فہرستوں کی بنیاد پر آخری وقت میں پھر بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔

6سال قبل متحدہ کی تقسیم کے باعث متحدہ ، پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی اپنے بلدیاتی امیدوار کھڑے کیے تھے اور بائیکاٹ نہ ہوتا تو بھی متحدہ کا ووٹ تقسیم ہوجاتا تھا۔

ایم کیو ایم نے پہلے بھی قومی اسمبلی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے چند ہزار ووٹ لینے والے قومی اسمبلی کے رکن بن گئے تھے۔ ایم کیو ایم نے 1992 کے اپنے خلاف آپریشن کو بنیاد بناکر سندھ اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

پیپلز پارٹی نے بھی جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1983کے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور مارشل لاء دور میں جنرل ضیاء الحق کے کرائے گئے۔

بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے وقت راقم نے شکار پور کے میونسپل کمیٹی کے الیکشن میں ایم سی 6کے حلقہ سے کونسلر کا الیکشن لڑا تھا جو شہر کا سب سے چھوٹا تقریباً 6سو ووٹروں کا حلقہ تھا جس میں پی پی کے حامی ووٹ ڈالنے نہیں نکلے تھے، پھر بھی راقم نے 148 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی اور راقم کے حریف کو 139 ووٹ ملے تھے اور دونوں کے ووٹ ضایع اور مسترد بھی ہوئے تھے جس کی وجہ سے انتخابی نشانات کی ایک دوسرے سے مشابہت تھی، پھر بھی ووٹوں کا ٹرن آؤٹ پچاس فیصد سے زائد تھا جب کہ 15جنوری کے کراچی و حیدرآباد میں ووٹر بہت کم باہر نکلے اور ٹرن آؤٹ مایوس کن رہا۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن ) نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق جو تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فارم IIمیں کئی طرح کی خامیاں سامنے آئی ہیں۔ کراچی و حیدرآباد میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح میں خاصا فرق رہا۔ ایم کیوایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد میں ٹرن آؤٹ میں کمی ہوئی جب کہ دیگر اضلاع میں ووٹروں کی نمایاں تعداد نے ووٹ ڈالے البتہ کراچی سینٹرل، کراچی ایسٹ ، کراچی ویسٹ، ساؤتھ ، کورنگی اور کیماڑی کے اضلاع میں نسبتاً کم رہا جب کہ ملیر ضلع میں ٹرن آؤٹ 10فیصد سے بھی کم رہا۔

جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت نے کسی بھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا جب کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم متعدد بار بلدیاتی اور عام انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی ہیں جس کا اثر ووٹروں کے ٹرن آؤٹ پر پڑا جب کہ حکومت کو مکمل انتظامات کرنے پڑے بلکہ بائیکاٹ کے باعث پرامن ووٹنگ کے لیے اضافی نفری تعینات کرنا پڑی۔

ووٹر آئیں نہ آئیں یا دیر سے آئیں الیکشن کمیشن کو وقت کے مطابق الیکشن کرانا اور انتخابی عملے کو وقت پر پہنچانا پڑتا ہے۔ انتخاب پر اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور جن علاقوں میں بائیکاٹ کا زیادہ اثر ہوتا ہے وہاں ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے۔

بائیکاٹ کی وجہ سے صرف 475 ووٹ لینے والے یوسی چیئرمین بن گئے جب کہ کراچی میں 3889 ووٹوں کے حلقے میں صرف 144ووٹ لینے والا کونسلر بن جائے تو ایسے انتخابات کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس غیر حقیقی عوامی نمایندگی کی روک تھام اور شرح ووٹرز کی پابندی عائد کرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔