مصنوعی چکنائی کا استعمال، پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل

عبید اللہ عابد  جمعرات 26 جنوری 2023
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ٹرانس فیٹس ایسا زہریلا کیمیکل ہے جو انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ فوٹو : فائل

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ٹرانس فیٹس ایسا زہریلا کیمیکل ہے جو انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ فوٹو : فائل

عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صنعتی طور پر تیارشدہ چربی یا صحت کو نقصان دینے والی چکنائی کے استعمال سے ملکی آبادی کا بڑا حصہ معرض خطر میں ہے۔

یاد رہے کہ عمومی طور پر صنعتی سطح پر تیار ہونے والی یہ چکنائی کوکنگ آئل ، بیکری مصنوعات اور ڈبہ بند خوراک میں استعمال کی جاتی ہے۔

سنہ 2018 میں عالمی ادارہ صحت نے دنیا کے تمام ممالک کو مضرصحت ٹرانس فیٹی ایسڈ کا 2023 ء تک خاتمہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سبب یہ ہے کہ ان فیٹی ایسڈ سے دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ امراض قلب کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اترنے والے انسانوں کی شرح سالانہ 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 16 میں سے 9 ممالک میں ’ ٹرانس فیٹی ایسڈ ‘ سے پیدا ہونے والے امراض قلب کے باعث اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا ، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر، ایران، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ یہ ممالک بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔

اب عالمی ادارہ صحت نے ان ممالک سے بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے فی الفور اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم 43 ممالک نے ، جن کی مجموعی آبادی 2 ارب 80کروڑ ہے، موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بہترین احتیاطی پالیسیاں اختیار کی ہیں تاہم دنیا کا زیادہ تر حصہ اب بھی غیر محفوظ ہے۔یاد رہے کہ ٹرانس فیٹی ایسڈز کے نتیجے میں موٹاپا تیزی سے بڑھتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ ٹرانس فیٹس ایک ایسا زہریلا کیمیکل ہے جو انسان کو موت کے منہ میں لے جاتا ہے، اسی وجہ سے اسے خوراک میں قطعی طور پر شامل نہیں کرنا چاہیے۔ یہی وہ وقت ہے کہ اس زہریلے کیمیکل سے فوری طور پر، ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

دوسری طرف عالمی ادارہ صحت نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیا کہ ٹرانس فیٹس سے نجات ابھی بہت دور ہے ، مستقبل قریب میں اس ہدف کا حصول مشکل ہے۔ ڈبلیو ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ’ ٹیڈروس اذانوم گیبریئس ‘ نے کہا کہ ٹرانس فیٹس کا انسانی صحت کو فائدہ نہیں ہے ، اس سے صحت پر بْرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں صحت کے نظام پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ٹرانس فیٹ کے خاتمے سے نظام صحت کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی اور انسانی صحت پر بے شمار فائدے مرتب ہوں گے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر برائے غذائی اور خوراک کے تحفظ فرانسسکو برانکا کا کہنا تھا کہ 60 ممالک جن کی مجموعی آبادی 3 ارب 40 کروڑ یا 43 فیصد آبادی میں موٹاپے پر قابو پانے کی پالیسی موجود ہے۔ 60 میں 43 ممالک موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بہترین احتیاطی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں۔

ٹرانس فیٹ ایسڈ کیا ہے ؟

ٹرانس فیٹ کو ’ ٹرانس اَن سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز‘ یا پھر ’ ٹرانس فیٹی ایسڈز ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مختلف سبزیوں وغیرہ سے نکالا جانے والی ایسی چکنائی ہوتی ہے جو ڈبہ بند کھانوں ، کیکس ، ہاٹ چاکلیٹس وغیرہ میں شامل ہوتی ہے تاکہ وہ طویل مدت تک دکانوں کی شیلفوں میں محفوظ رہیں۔ جب سبزیوں وغیرہ سے ٹرانس فیٹ نکالا جاتا ہے، تب اس کی شکل تیل جیسی ہوتی ہے۔

پھر اسے ٹھوس چکنائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اگلے مرحلے میں ایسی ٹھوس چکنائی مارجرین اور بناسپتی گھی کی صورت میں بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔

ٹرانس فیٹ انسانی صحت کے لئے کیسے نقصان دہ ہے؟

سبزیوں سے نکالی جانے والی چکنائی (بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ) کا استعمال قریباً 100برس قبل شروع ہوا۔1950ء کے بعد اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا۔اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ اس وقت کی حکومتیں بھی جانتی تھیں کہ ٹرانس فیٹ میں غذائیت برائے نام بھی نہیں ہوتی ، بلکہ اسے صرف سستا ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

آج تک دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹرانس فیٹ کے انسانی صحت کے لئے نقصانات واضح ہونے کے باوجود اسے استعمال کیا جاتا رہا ۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس میں کمپنیاں براہ راست اور ان کمپنیوں کو ٹرانس فیٹ کی تیاری کی اجازت دینے والی حکومتیں بلواسطہ طور پر شریک ہیں۔

پوری دنیا کے ماہرین صحت متفق ہیں کہ ٹرانس فیٹ اور دل کے امراض کے مابین گہرا تعلق ہے ۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے ایک جائزے میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے استعمال اور دل کے امراض میں گہرا تعلق ہے۔

1994ء میں امریکا میں، امراض قلب میں مبتلا ہوکر انتقال کرنے والے 30000 افراد کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔

تب ماہرین نے اندازہ لگایا کہ 2006ء تک اس مصنوعی چکنائی کے سبب مرنے والوں کی تعداد سالانہ ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد حکومت اس مصنوعی چربی کے استعمال کے خلاف فعال ہوئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی چکنائی کے سبب جسم میں غیر مفید کو لیسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایک جائزے میں بتایاگیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء سے ٹرانس فیٹ نکالنے پر دل کا دورہ پڑنے کے واقعات اوراس سے ہونے والی اموات میں چھ سے19فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ ٹرانس فیٹ ایسڈ کی وجہ سے ایل ڈی ایل ( صحت کے لئے نقصان دہ کولیسٹرول ) بڑھ جاتا ہے اور ایچ ڈی ایل ( صحت کے لئے مفید کولیسٹرول ) کو کم کرتا ہے۔

دراصل مصنوعی چکنائی کے استعمال سے انسانی صحت کے لئے ضروری فیٹی ایسڈز بشمول اومیگا تھری کو میٹابولائز کرنے کی صلاحیت میں خلل واقع ہوتا ہے۔

نتیجتاً دل کی شریانوں کی دیواروں کی فاسفولیپڈ فیٹی ایسڈ کی ساخت میں تبدیلی رونما ہوتی ہے ، یوں امراض قلب پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے تاہم اس کا ذیابیطس کا مرض پیدا کرنے میں کتنا کردار ہے۔

اس پر تاحال تحقیق جاری ہے۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ بحیثیت مجموعی مصنوعی بنیادوں پر نکالے جانے والے تیل کے انسانی صحت پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ فیٹی ایسڈز ریسٹورنٹس میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں لوگ ایسے ریسٹورنٹس میں زیادہ کھاتے پیتے ہیں ، وہاں موٹاپا ، بلند فشار خون اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے امراض زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

اگرچہ ٹرانس فیٹ اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے باہمی تعلق کے بارے میں اتفاق رائے نہیں پایا جارہا ہے تاہم ایک تحقیقی رپورٹ میں ثابت کیا گیا ہے کہ اس مصنوعی چربی کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ ٹرانس فیٹ کے سبب موٹاپا بالخصوص پیٹ بڑھنے کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے دوران میں چھ برس تک جن بندروں کو مصنوعی چکنائی کھلائی گئی ، ان کے جسمانی وزن میں سات فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ دوسری طرف جن بندروں کو اصلی چربی کھلائی گئی ، ان میں وزن بڑھنے کی شرح محض ایک اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔

’ آرکائیو آف نیورولوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیچوریٹیڈ فیٹ اور اَن سیچوریٹیڈ فیٹ (ٹرانس فیٹ ‘ کی وجہ سے الزائمر کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں یادداشت ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور رویے پر نہایت برا اثر پڑتا ہے۔

2006ء میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے سبب پراسٹیٹ کینسر بھی ہوتا ہے۔ ’ یورپین پروسپیکٹو انویسٹی گیشن ان ٹو کینسر اینڈ نیوٹریشن ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے استعمال سیچھاتی کے کینسر کے خطرات میں 75 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔

سن دوہزار سات میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاربوہائیڈریٹس کے بجائے ٹرانس فیٹ سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش خواتین کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں بانجھ پن کے خطرات 73 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

سپین کے ماہرین نے ایک چھ سالہ جائزے کے دوران میں 12,059 افراد کی خوراک کا تجزیہ کیا ۔ پتہ چلا کہ جو لوگ سب سے زیادہ مصنوعی چکنائی کھاتے ہیں ان میں ڈپریشن کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں 48 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو مصنوعی چکنائی نہیں کھاتے تھے۔

بہترین احتیاطی پالیسیاں کیا ہیں ؟

عالمہ ادارہ صحت ایک عرصہ سے مصنوعی چکنائی کے زیادہ استعمال سے خبردار کررہا ہے۔ ادارہ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات میں ٹرانس فیٹ کو مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے کم استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے۔

مثلاً جب بہترین احتیاطی پالیسیوں کی بات کی جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ تمام کھانوں میں کْل چکنائی کے ہر 100 گرام میں صنعتی سطح پر تیار شدہ ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ سے زیادہ 2 گرام ہو ۔ اسی طرح ایسی پالیسیوں کا تقاضا ہے کہ ٹرانس فیٹ کے سب سے بڑے ذریعہ ہائیڈرو جنیٹڈ تیل کی پیداوار پر پابندی عائد کی جائے یا پھر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔

دنیا بھر کی حکومتوں کے اقدامات

ٹرانس فیٹ کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امراض کے ثبوت ملنے اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ہدایات جاری ہونے کے بعد پوری دنیا میں حکومتوں نے قواعد و ضوابط تیار کرنا شروع کردیے۔

انھوں نے خوراک تیار کرنے والی تمام کمپنیوں کو پابند کردیا کہ وہ اپنی مصنوعات پر اجزائے ترکیبی واضح طور پر لکھیں، بالخصوص مصنوعی چکنائی استعمال کرکے خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا۔ انھیں کہا گیا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

ڈنمارک دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ٹرانس فیٹ کے خلاف قانون منظور کیا ، اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے کم مقدار میں ٹرانس فیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہے یعنی محض ایک فیصد ۔ ڈینش حکومت کی کوششوں کا نتیجہ یوں نکلا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں امراض قلب میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

امریکا میں کیلی فورنیا پہلی ریاست تھی جس نے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی چکنائی ( ٹرانس فیٹ ) پر مکمل پابندی عائد کی ۔کیلی فورنیا کی حکومت نے ٹرانس فیٹ کا استعمال کرنے والے کمپنیوں پر بھاری بھرکم جرمانے عائد کیے۔

یورپی یونین نے بھی اپنے تمام خطوں میں ٹرانس فیٹ کے2 فیصد فی 100 گرام سے بھی کم استعمال کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی۔ برطانیہ میں بھی عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی روشنی میں قواعد و ضوابط طے کیے گئے ہیں ، وہاں مصنوعی چکنائی کے خلاف عوامی شعور کی سطح اس قدر بلند کی گئی کہ لوگوں نے از خود ہی اس کے استعمال سے گریز شروع کردیا۔ یہاں بعض ریٹیلرز اپنے ہاں ٹرانس فیٹ سے پاک مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔

سعودی عرب میں کوئی ایسی خوراک داخل نہیں ہوسکتی تھی جس پر وہاں کے طے شدہ معیار کے مطابق ٹرانس فیٹ کی شرح درج نہ ہو۔2020ء میں سعودی حکومت نے مصنوعی چکنائی پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی۔ سوئٹزر لینڈ میں بھی2008ء سے ٹرانس فیٹ پر مکمل پابندی عائد ہے۔

سویڈن بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہونے جارہا ہے جہاں مصنوعی چکنائی پر مکمل پابندی عائد ہے۔ ارجنٹائن کی حکومت نے بھی2014ء میں ٹرانس فیٹ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کردی۔ اس کے نتیجے میں اس کے نظام صحت کے اخراجات میں 100ملین ڈالر سالانہ کی بچت ہوئی۔ اسی طرح آسٹریلیا ، آسٹریا اور بلجیم کی حکومتوں نے بھی مصنوعی چکنائی کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ برازیل میں بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ خوراک تیار کرنے والی کمپنیاں مصنوعات کے اوپر واضح طور پر ٹرانس فیٹ کی مقدار لکھیں۔ کینیڈا میں ہائیڈروجینیٹڈ تیل پر پابندی عائد کردی گئی۔ یادرہے کہ یہی تیل ٹرانس فیٹ کی تیاری میں بنیادی جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی وزارت صحت نے بھی عالمی ادارہ صحت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ جون2023ء تک ٹرانس فیٹ کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائے گی ، تاہم اس دوران میں حکومت اور اس کے اداروں نے ٹرانس فیٹ کے خلاف عوامی شعور بہتر کرنے کی کم ہی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں مارجرین اور بناسپتی گھی کے استعمال میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

دنیا بھر میں ٹرانس فیٹ کے خلاف شعور بلند ہونے کے باوجود یہاں کے ماہرین صحت بھی ایسی پالیسیاں تیار کرنے پر زور نہیں دے رہے جن کے ذریعے خوراک تیار کرنے والوں کو 2فیصد فی 100 گرام کے پیمانے کی پابندی کروائی جائے۔

قارئین کرام ! ہماری حکومتیں دیگر ’’ زیادہ اہم امور‘‘ میں مصروف رہتی ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے پالیسیاں تیار کرنے اور نافذ کرنے کے لئے فرصت نہیں۔ آپ اپنے گھر کی حد تک ہر قسم کی مصنوعی چکنائی کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کریں۔ تاکہ آپ اور آپ کے پیارے صحت مند زندگی گزار سکیں اور آپ کے گھریلو نظام معیشت پر بیماریاں اور ان کا علاج بوجھ ثابت نہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔