- افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح
- گوگل نے اسرائیل کو ٹیکنالوجی دینے کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو نکال دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایران کے صدر کا دورہ پاکستان پہلے سے طے شدہ تھا، اسحاق ڈار
- کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جا رہی ہے، وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا: ٹی ایل پی سے معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
- کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بس کو حادثہ، دو افراد جاں بحق اور 21 زخمی
- راولپنڈی؛ نازیبا و فحش حرکات کرکے خاتون کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- حج فلائٹ آپریشن کا آغاز 9 مئی سے ہوگا
- کیویز کیخلاف سیریز سے قبل اعظم خان کو انجری نے گھیر لیا
- بجلی صارفین پرمزید بوجھ ڈالنے کی تیاری،قیمت میں 2 روپے94 پیسے اضافے کی درخواست
- اسرائیل کی رفح پر بمباری میں 5 بچوں سمیت11 افراد شہید؛ متعدد زخمی
- ٹرین سےگرنے والی خاتون کی موت،کانسٹیبل کا ملوث ہونا ثابت نہ ہوسکا، رپورٹ
صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی درخواستوں پر سیکرٹریز قانون و اطلاعات طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری قانون اور سیکرٹری اطلاعات کو 6 فروری کو طلب کر لیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پی ایف یو جے اور ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیئرمین آئی ٹی این ای کوشش کر رہے ہیں قانون سازی کے لیے، کیا کوئی پراگریس ہوئی ہے؟۔
ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے وکیل عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہم نے وزارت اطلاعات کو ترمیمی بل کا مجوزہ ڈرافٹ تیار کر بھجوا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین آئی ٹی این ای نے بھی ڈرافٹ تیار کر رکھا ہے، نیوز پیپر ایمپلائیز کے لیے آئی ٹی این ای کا ایک فورم کام کر رہا ہے، قانون سازی کے بعد الیکٹرانک میڈیا کو بھی شامل کر کے اس کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہے، ویسے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے نیوزپیپر والا قانون بھی آج تک سمجھ نہیں آیا کہ وہ ہے کیا ؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آئی ٹی این ای میں ممبرز اور بینچز کا تصور بھی دیا جا رہا ہے، مسئلہ نیت کا ہے، کسی کو اس کام کے لیے رٹ پٹیشن میں آنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے، حکومت کو خود احساس کرکے ان چیزوں کو کرنا چاہیے، بہتر ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو جائے، حامد میر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں، وہ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہیں، بہتر بتا سکتے ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ زیر التوا کیس پر کمنٹ کرنے کے باعث کچھ صحافیوں کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے حامد میر سے کہا کہ جب عدالتی فیصلہ آ جائے تو وہ پبلک ڈومین میں آ جاتا ہے، تبصرے کے لیے الفاظ کا چناؤ درست ہونا چاہئے، کیا آپ الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کے حق میں ہیں۔
حامد میر نے جواب دیا کہ میں الیکٹرانک میڈیا کی قانون سازی کے حق میں ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا بھی ایشو ہے؟ ڈیڑھ دو لاکھ روپے کے بقایا جات کے لیے صحافی سالوں تک ٹریبونل چکر لگاتے ہیں، جب یہ چیزوں آگے بڑھیں گی تو کیا اس میں کسی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے؟ کیا موجودہ حکومت کی مرضی اور خواہش ہے کہ وہ یہ کام کرے گی؟ ویسے تو یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں، کسی حکومت کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، اگر موجودہ حکومت یہ کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ کام کر گزرے۔
عدالت نے سیکرٹری قانون اور سیکرٹری اطلاعات کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔