کمزور انتخابی نظام

وجیہ احمد صدیقی  جمعـء 27 جنوری 2023

پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کے بعد کیا پاکستان میں بھی بھارت کی طرح مختلف ریاستوں کے انتخابات مختلف اوقات میں ہوں گے؟ بھارت میں ووٹروں کی تعداد 78 کروڑ ہے۔

بھارت میں 28 ریاستیں ہیں اور ہر سال کسی نہ کسی ریاست میں الیکشن ہو رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کل 4 صوبے ہیں جن کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قومی انتخابات کے ساتھ ہی ہوتے ہیں، لیکن اب ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ دو صوبوں کے اندر الیکشن عام انتخابات سے پہلے ہو جائیں گے اور باقی دو صوبوں میں الیکشن عام انتخابات کے بعد ہوں گے۔

پاکستان کی اقتصادی حالت ایسی ہے کہ یہ ہی بہتر نظر آتا ہے کہ عام انتخابات ایک ہی مرتبہ ہوں تاکہ قومی خزانے پر اخراجات کا بوجھ بار بار نہ پڑے، لیکن ہمارے سیاستدانوں کو یہ لالچ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہیں۔

ڈیجیٹل میڈیا پالیٹیکس کی ماہر ایک سیاسی جماعت کا اب یہ مطالبہ ہے کہ اس کی تیار کردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی جائے، تاکہ دھاندلی کا خاتمہ ہو۔

حالانکہ الیکٹرانک ووٹنگ کا ریکارڈ یہ ثابت کر چکا ہے کہ اس میں دھاندلی کا زیادہ امکان ہے اور دھاندلی کو درست بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس پارٹی کا مطالبہ مان کر اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو استعمال کیا جائے تو صرف مشینوں کی مد میں پاکستان کے قومی خزانے سے ایک کھرب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہو گی۔

یہ اخراجات ان اخراجات کے علاوہ ہوں گے جو عموما عام انتخابات میں ہوتے ہیں۔ یہ کون دے گا؟ ہماری الیکٹرانک ترقی کا یہ حال ہے کہ ابھی تک نتائج کو الیکشن کمیشن کے صدر دفتر تک پہنچانے کے لیے الیکٹرانک نظام نہیں قائم ہوا ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ووٹنگ کے لیے جو الیکٹرانک سسٹم لگا ہوا ہے۔

اسے بھی فعال نہیں کیا گیا ہے یہ سسٹم تو پنجاب اسمبلی میں بھی لگاہوا ہے لیکن اس سسٹم کے تحت اعتماد کے ووٹ کی رائے شماری نہیں کرائی گئی، کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو استعمال کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 10 کے تحت توہینِ الیکشن کمیشن کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں جسے پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری بھی حاصل ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری دونوں ایوانوں سے ہوئی تھی اور یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے مترادف اختیارات تفویض کرتا ہے، یعنی الیکشن کمیشن انتخابات کو منصفانہ بنانے کے لیے انتخابی قواعد بنا سکتا ہے۔

جیسا کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو استصواب رائے اور ایگزیٹ پول پر پابندی لگانے کا پورا اختیار ہے تاکہ وہ انتخابی نتائج کو متاثر نہ کریں۔ بھارتی انتخابات میں دولت کے زور کو کم کرنے کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن نے کچھ تجاویز تیار کی ہیں۔

بھارتی الیکشن کمیشن نے متعلقہ سرکاری افسران کو تمام انتخابات کے اخراجات کا نگران بنایا اور ایک امیدوار اپنی انتخابی مہم میں کتنی رقم خرچ کر سکتا ہے اس پر بھی ایک حد متعین کی اور وقتا فوقتا اس حد میں تبدیلی بھی ہوتی رہی ہے، لیکن پاکستان میں اس معاملے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن امیدوار کی نامزدگی کے وقت امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل کا ایک حلف نامہ لیتا ہے ساتھ ہی امیدواروں کو نتیجہ آنے کے بعد 30 دنوں کے اندر ان کو تمام انتخابی اخراجات کی تفصیل بھی جمع کرانی پڑتی ہے۔

انتخابی اخراجات میں کمی کرنے کے لیے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ایام میں کمی کرتے ہوئے 21 دن سے 14 دن کر دیا ہے۔ انتخابات میں جرائم کو کم کرنے کے لیے کمیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جن امیدواروں پر جرم ثابت ہو گیا ہو ان پر زندگی بھر کی پابندی لگادی جائے۔

پاکستان میں سیاست دان ہر صورت میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں اور بعد میں قانون کے مطابق وہ صرف ایک ہی نشست رکھتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 9 حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑا 6 سے کامیاب ہوئے اور اب تک کسی بھی نشست سے استعفیٰ نہیں دیا اور نہ ہی کسی نشست کو سنبھالنے کے لیے حلف اٹھایا۔ اب الیکشن کمیشن نے انھیں ان حلقوں سے نااہل قرار دیے جانے کے باوجود کامیاب قرار دے دیا ہے، اب عمران خان نے قومی اسمبلی کے خالی ہونے والے 35 حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ انتخابات کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے، اس رجحان کا سد باب ہونا چاہیے۔ کوئی بھی امیدوار وہیں سے الیکشن لڑ سکتا ہے جہاں اس کے ووٹ کا اندراج ہو، اگر یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے تو ایک سے زائد حلقوں سے لڑنے والے امیدوار کو دونوں حلقوں سے کامیاب ہونے کی صورت میں خالی کردہ نشست پر دوبار انتخابات کے اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔

اگر وہ ایک حلقے سے جیت جاتا ہے اور دوسرے حلقے سے ہار جاتا ہے تو کیا سمجھا جائے ایک حلقے کے عوام نے اسے مسترد کیا ہے اور دوسرے حلقے کے عوام نے قبول؟ یہ بھی مذاق ہے۔ بھارت میں اس رجحان پر بھی ایک طویل عرصے سے پابندی ہے انڈین ری پریزینٹیشن آف پیپلز ایکٹ 1951 کے سیکشن (7) 33 کے تحت کوئی بھی امیدوار لوک سبھا (قومی اسمبلی) اور ودھان سبھا (صوبائی اسمبلی) کے دو حلقوں سے زیادہ سے الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے۔

ایک شخص اگر قومی اور صوبائی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے جیت جاتا ہے تو اسے ان دونوں میں سے کسی ایک نشست کا انتخاب کرنا ہو گا اسے یہ فیصلہ 10 دن کے اندر کرنا ہو گا، اگر وہ سینیٹ (راجیہ سبھا) کا ممبر ہے اور لوک سبھا کا ممبر بھی منتخب ہو گیا ہے تو اگر اس نے 10 دن میں فیصلہ نہیں کیا تو اس کی راجیہ سبھا کی نشست ختم ہو جائیگی۔

پاکستان میں اقتدار میں آنیوالی جماعت یہ بھول جاتی ہے کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کے بل پر اقتدار میں آئی ہے۔

ان کے نمائندے یہ راگ الاپنا شروع کرتے ہیں کہ انھیں پاکستان کے 22 کروڑ عوام نے ووٹ دیا ہے، جب کہ ان کی جماعت پاکستان کے 10 یا 11 کروڑ ووٹرز میں سے صرف ایک کروڑ ووٹ لے کر اقتدار میں آتے ہیں۔ بھارت میں پولنگ کا عمل کئی کئی دن جاری رہتا ہے ہمارے یہاں ایک ہی دن میں سب کچھ نمٹا دیا جاتا ہے۔

شاید ووٹروں کی اکثریت ان امیدواروں کو ووٹ نہیں دینا چاہتی ہو تو ان کے پاس غیر حاضری کے علاوہ کوئی آپشن یا راستہ نہیں ہوتا۔ کئی برسوں سے یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات کو جوڑ توڑ کر کے زبر دستی 50 فیصد سے زیادہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی فہرستوں کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے اور ووٹر لسٹ میں شامل ووٹروں کی پولنگ اسٹیشن تک کی رسائی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بحال ہو اور عوام کے حقیقی نمایندے ہی منتخب ہوں۔

الیکشن کا ایک طریقہ متناسب نمائندگی بھی ہے یہ الیکشن دو مرحلوں میں ہوتا ہے، اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار کل ووٹوں کا 51 فیصد حاصل کر لے تو وہ کامیاب قرار پاتا ہے۔ ورنہ دوسرے مرحلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔

اس مرحلے میں پہلے مرحلے میں کل ووٹوں کا 30 فیصد سے کم حاصل کرنیوالے الیکشن سے باہر ہو جاتے ہیں اور مقابلہ زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالوں میں ہوتا ہے، لیکن اس طرح انتخابات میں نادیدہ قوتوں کا کردار کم ہو جاتا ہے یا ختم ہی ہو جاتا ہے، لیکن ہمیں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ شفاف الیکشن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں خواب ہی رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔