تحریک معاشی آزادی

رضوان احمد گورایا  جمعـء 27 جنوری 2023

پاکستان آج تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، معاشی روڈ میپ کی عدم دستیابی کے باعث حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔

بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتیں عوام کی امیدوں پر پوری نہیں اتری ہیں ، تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا مگر کسی نے بھی آج تک عوام کی فلاح و بہبود خوشحالی اور پاکستان کی معاشی آزادی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔

ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود عوام بھوک کے ہاتھوں مر رہے ہیں تو دوسری طرف اشرافیہ کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ کر چند ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ پاکستان پر جتنا قرضہ چڑھا ہوا ہے وہ صرف چند خاندان مل کر اتار سکتے ہیں ، اشرافیہ نے اربوں ڈالرز کی کرپشن کر رکھی ہے۔

پاکستان پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی رنگ بازیاں ختم نہیں ہو رہی ہیں ، تمام سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو عوام دوست ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں مگر حقیقتاً انھیں عوام الناس کی فلاح و بہبود ترقی و خوشحالی کی کوئی فکر نہیں ہے۔

عوام نے اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود بھی آج بھی سیاسی جماعتوں سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ عوام کو جاگنا ہوگا اشرافیہ سے اپنی معاشی آزادی بھیک کے طور پر نہیں ملے گی ہمیں اپنا حق لڑ کر لینا پڑے گا آخر کب تک ہم عوام ان پر بھروسہ کریں گے۔

کب عوام جاگیں گے ، کب ہمارے اندر شعور پیدا ہوگا اللہ نے پاکستان کو تمام وسائل سے مالا مال کیا ہے ہمارے پاس تمام وسائل موجود ہیں ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ ہمارے پاس معدنیات کے لامحدود ذخائر موجود ہیں تیل و گیس کے وافر مقدار میں ذخائر بھی موجود ہیں لیکن ہمارے سیاسی اکابرین محب وطن نہیں ہیں۔

عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا جب تک ہم عوام اپنے اندر سے اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے ایوان اقتدار میں نہیں لائیں گے تب تک ہمارے حالات ابتر ہی رہیں گے۔

ہمیں خواب غفلت اور غلط فہمی سے نکلنا پڑے گا۔ مقتدر اداروں کو بھی پاکستان کی معاشی آزادی کی خاطر اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ سب کو سب کا پتہ ہے دیکھیں ملک ہے تو سب ہیں ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جب تک ہم پر وڈیرے سرمایہ دار اور جاگیر دار مسلط رہیں گے۔

پاکستان کی معاشی آزادی خطرے میں رہے گی کسی بھی ملک کی معیشت اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے اور ہماری معیشت کا برا حال ہے ہماری فیکٹریاں اور کارخانے جہاں کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے وہ تیزی سے بند ہو رہی ہیں حکومت خود تو روزگار مہیا نہیں کر سکتی ان کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث پرائیویٹ سیکٹر کی صنعتیں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے بہت دور ہے۔

تاجر برادری شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے آخر ہماری عوامی شکایتوں کا ازالہ کون کرے گا ؟ پاکستان میں امپورٹ اور ایکسپورٹ بند ہے ڈالر ناپید ہے ۔

مارکیٹ میں مال شاٹ ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام عالم پاکستان کے سیاسی اکابرین پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے ہماری تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہی ہیں۔

تمام سیاستدان آج لاکھوں ڈالرز کے مالک ہیں ان سب کا سرمایہ بیرون ممالک میں موجود ہے یہ سارا سرمایہ ہمارا تھا جو انھوں نے لوٹ لوٹ کے اپنا بنا لیا۔ ڈرو خدا کے عذاب سے عوام کے دلوں سے بد دعائیں نکل رہی ہیں، میں کیسے ان کی خوشامد یا تعریف کروں ہمیں غیروں سے زیادہ اپنوں نے ڈسا ہے۔

اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ قوم میں شعور پیدا کریں ، وطن عزیز میں ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے کیا علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا! نااہل اور نالائق سیاسی اکابرین نے وطن عزیز کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ ان کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟ معذرت کے ساتھ پاکستان کی بربادی کا ذمے دار میں تمام سیاسی جماعتوں کو سمجھتا ہوں یہ کس عوامی مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں۔

ان سب نے مل کر عوام کا معاشی قتل عام کیا ہے۔  میرے والد خالد گورایا نے تحریک قومی معاشی آزادی کی بنیاد رکھی تھی ، ساری عمر میرے والد نے پاکستان کی معاشی آزادی کی جدوجہد میں گزاری 12 اکتوبر 1999 میں جب جنرل (ر) پرویز مشرف تشریف لائے تب حکومت نے میرے والد کو وفاقی وزیر خزانہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اس وقت میرے والد نے وزارت تعلیم کی ڈیمانڈ رکھی تھی، بات نہیں بنی پھر حکومت کی جانب سے سندھ کا چیف ایڈوائزر بنانے کی پیشکش کی گئی۔

اس وقت جنرل مشرف کا ایجنڈا پاکستان کی معاشی آزادی تھا اور میرے والد بھی پاکستان کی معاشی آزادی کی تحریک کے سربراہ تھے لیکن بدقسمتی سے اس وقت مقتدر اداروں کے نمایندوں سے جب ملاقات ہوئی تو ان کا ایجنڈا کچھ اور تھا ان کھٹی میٹھی یادوں کے ساتھ ہم واپس کراچی آگئے۔ بہرحال اس میں بھی اللہ کی رضا شامل ہوگی 4 ماہ پہلے میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اللہ درجات بلند فرمائے (آمین)

پچھلے ہفتے میرے پیٹ کا میجر آپریشن ہوا تھا میرے پیٹ میں اپینڈکس بلاسٹ ہو چکا تھا زندگی کا ففٹی ففٹی چانس تھا میں اپنے رب کا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے میری جان بچائی، اور ڈاکٹر مبشر اقبال نے پوری تندہی سے میرا علاج کیا، میں اپنے تمام دوستوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی دعاؤں کے باعث آج اللہ نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے کافی عرصے بعد میں نے یہ کالم لکھا ہے ۔ 1970 سے لے کر اب تک ہونے والی معاشی تباہی، بدانتظامی، معاشی جمود اور وسائل کے ضیاع کے ذمے داروں کے تعین کے لیے قومی سطح پر مباحثے کا اہتمام کیا جائے نیز بحران سے نکلنے کے لیے جید ماہرین پر مشتمل کمیشن بھی بننا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔