اب کوئی حل نہیں

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 28 جنوری 2023
barq@email.com

[email protected]

سچ تو یہ ہے کہ سب جھوٹ ہے جو بولا جارہاہے جو سنا جارہاہے جو لکھا جارہاہے جو پڑھا جا رہاہے جو دکھایا جارہاہے جو بیچا جارہاہے جو خریداجارہاہے سب جھوٹ ہے۔

منحصر ’’قرضے‘‘پہ ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

جب ایک مکان کی چھت یا فرش ٹوٹ جائے، کوئی دیوارخستہ ہوجائے، لپائی ادھڑ جائے، ایک دو دراڑیں پڑ جائیں تو اس کی مرمت ہوجاتی ہے لیکن اگر فرش بھی بیٹھ جائے، چھت بھی لٹک جائے، چاروں دیواروں میں دراڑیں ہی دراڑیں پڑ جائیں۔

سوراخ ہی سوراخ ہوجائیں اوران دراڑوں، سوراخوں میں چوہے، چھپکلیاں، سانپ بچھو بسیراکرلیں اور پورا مکان بھی نیچے دھنس رہاہو تو اس کی مرمت کون کرے یاکیسے ہوسکتی ہے اور یہاں جو بھی آتاہے یہ سب کچھ چھوڑ کر گھر سجانے کی بات کرتا ہے۔

گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کاہے

پہلے یہ طے ہوکہ اس گھر کو بچائیں کیسے؟

بڑے آئے ریاست کو بچانے ،ملک کو بچانے، عوام کو بچانے، اسلام کو بچانے، معیشت کو بچانے، اورایک ایک کرکے سارے کچھ نہ کچھ اس جلنے والے گھر سے کچھ لوٹ کر چلے گئے،اب کسی کا پتہ بھی نہیں کہ کہاں آئے تھے کہاں چلے گئے ،ہاں اپنی اپنی کشتیوں میں سوار ہوکر اور مال غنیمت لاد کر ڈوبتے جہاز کو بیچ منجدھار چھوڑ کر چلے گئے

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے، سو کر چلے

جس ملک کا ہرمحکمہ خسارے میں ہو،جس کے ہرشعبے میں چوروں کے چور بیٹھے ہوں، ہر ہر شاخ اپنی گراںباری سے ٹوٹ رہی ہو، ہرشاخ پر الو نہیں بلکہ چیل کوے اورگدھ بیٹھے ہوں۔

جس کے وزیر کرپٹ ہوں،افسر کرپٹ ہوں ،درجہ چہارم سے لے کر اوپر سب سے اونچی شاخ پر بیٹھنے والے صرف اس لیے گھر سے آتے ہوں کہ آج کیا بلکہ کیاکیا اورکتنا کتنا لے کر جائیں گے۔

وہاں کے اصلاح احوال کی تو قع کرنا ایسا ہے جیسے کوئی بلیوں کے بیچوں بیچ گوشت کی توقع کرے،کسی کی تحصیص نہیں صرف بقدر رسائی اور بس چلنے کی بات ہے،حرام وحلال کا تصور تو بہت پہلے اڑایا جا چکا ہے جو کچھ کوئی کرسکتاہے، وہ حلال ہے اور جو نہ کرسکتا وہ حرام ہے چاہے وہ غنڈہ بدمعاش ہو یاکوئی اور ہو۔ آستین میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا۔

سب کے سب جھوٹ بول رہے ہیں ،چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا دینی دنیاوی بیان باز تقریر باز، خوب بنا بنا کے جھوٹ بولتے ہیں، یہاں وہاں سے دوردرازکی کوڑیاں لاکر ،ہوائیں چھوڑ کر اور ناممکن العمل باتیں کر کے صرف اپنا نام اور اپنا کام دیکھ رہے ہیں خود کو محفوظ کررہے ہیں، چاہے ملک وقوم کا بیڑہ ہی غرق کیوں نہ ہوجائے۔

یہی وہ سرزمین ہے جو دنیا میں سونے کی چڑیا یاسونے کے انڈے دینے والی مرغی کے طور پر مشہورتھی، جسے شکار کرنے، قبضہ کرنے دنیا کے کونے کونے سے طالع آزما آتے تھے ، یونان سے عربستان سے ایران و توران ، منگولستان سے یہاں تک یورپ سے کولمبس آئے ۔

کیا وہ سونے کی چڑیا یا مرغی اب مرگئی ہے، بانجھ ہوگئی، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ  انڈے دیتی ہے، فرق صرف یہ پڑاہے کہ اب انڈے چرانے والے بہت ہوگئے ہیں۔

ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ ماضی میں سونے کی اس چڑیا پر قبضہ کرنے والے کم ازکم اتنے انصاف دار تو تھے کہ چڑیا کاخیال بھی رکھتے تھے اسے دانہ دنکا بھی کھلاتے تھے۔

انگریز جو سب سے زیادہ بدنام کیے گئے ہیں انھوں نے اس ملک سے اگر کچھ لیا بھی ہے تو دیا بھی ہے ،انتہائی حیرت ناک ذرایع رسل ورسائل، سڑکیں، پل،نہریں، ریلوے لائن۔کیاانھوں نے کبھی کسی سڑک کو بیچا تھا کسی پل کو انڈسٹری بنایا تھا۔

ملک کے اثاثے بیچ کر سودی قرضہ لیاتھا ؟ ہمارے اکثر جعلی دانا دانشور سقراط بقراط اور بزرگ جمہرجب اپنا فلسفہ بگھارنے پر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انگریزوں نے یہ سب کچھ ہمارے لیے نہیں بلکہ ہمارا مال یہاں سے لے جانے کے لیے کیا تھا؟ ٹھیک مان لیتے ہیں لیکن اب تو وہ جاچکے ہیں۔

وہ مال جو لے جارہے تھے یہیں رہنے لگا ہے لیکن وہ ’’علی بابا‘‘ کہاں سے لائیں جو چوروں کے اس غار کاپتہ لگائے جہاں سب کچھ جا رہا ہے۔

صدیوں کے عدم استعمال کی ماری ہوئی خالی کھوپڑیاں اب بھی سایوں کے پیچھے بھاگ رہی ہیں، لٹ رہی ہیں ،اور اب بھی نہیں چاہتیں کہ چالیس چور کون ہیں اورکیاکچھ لوٹ رہے ہیں بلکہ ان ہی چالیس چوروں سے توقع کررہی ہیں کہ وہ چوروں کو پکڑ لیں گے۔

جھنڈے مختلف ہیں لیکن سب میں وہی ایک ڈنڈا چھپایا ہوا ہے جو کامیاب ہوتے ہی کپڑا لپیٹ  دیا جاتا اورڈنڈا باہرآکر ان کے سرکاندھوں اورکمر پر پڑنے لگتاہے ۔

کیا ملا تجھے بتا سایوں کے پیچھے بھاگ کر

اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا

صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیل

ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔