دہری شہریت…ایک ٹکٹ دو دو مزے؟ 

سرور منیر راؤ  اتوار 29 جنوری 2023
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کا سیاسی نظام یوں تو تسلسل سے طلاطم کا شکار رہا ہے، لیکن کچھ عرصے سے یہ نظام جس ارتعاش اوربھنور میں ہے، اگر ہم اس سے نکل آئے تو پاکستان میں نہ صرف یہ کہ استحکام آئے گا بلکہ ایک ایساسیاسی کلچر تشکیل پائے گا جس سے ریاست کی عزت و افتخار میں بھی اضافہ ہو گا۔

پاکستان اس وقت بہت سے گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں دہری شہریت کو چھیڑنا کوئی آسان بات نہ ہے۔ دہری شہریت کا معاملہ پاکستان کے سیاسی نظام میں اب تک حل طلب ہے۔

بھارت نے تو ابتدا ہی سے اس مسئلے کو حل کر لیا ہے اور واضح طور پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ جو بھی بھارتی شہری دوسرے ملک کی شہریت قبول کرے گا، اسے بھارت کی شہریت چھوڑنا پڑے گی۔ پاکستان کے نظام میں دہری شہریت کا معاملہ اب تک حل طلب ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لینے وزراء، سیاستدان، بیوروکریٹ اور کئی اداروں کے سربراہوں کے لیے تو دہری شہریت کا معاملہ بڑی پیچیدہ حیثیت کا حامل ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں نے دوسرے ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا کی شہریت حاصل کی۔ ان افراد کی وجہ سے پاکستانی شہریت سے متعلق قوانین میں ترامیم کی گئیں اور کئی دوسرے ممالک کی طرح پاکستان نے بھی اپنے شہریوں کو دہری شہریت کا حق دیا ہے۔

یہ حق دنیا بھر کے تمام ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو حاصل نہیں بلکہ دنیا کے 16ایسے ممالک ہیں جن سے دہری شہریت کا معاہدہ ہے، ان میں برطانیہ، اٹلی، فرانس، بیلجئیم، آئس لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سکینڈے نیویا،امریکا، آئر لینڈ، نیدر لینڈ، سوئیزرلینڈ، کینیڈا،مصر اور شام شامل ہیں۔

فی الحقیقت دہری شہریت کا حامل ہونا مسئلہ نہیں بلکہ دہری شہریت کے حامل افراد کا سرکاری عہدہ رکھنا یقینی اعتبار سے ایک اہم مسئلہ ہے۔دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے اپنی محنت، دیانت اور صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بیرون ملک عزت اور مرتبہ حاصل کیا ہے بلکہ وہ پاکستان میں آباد اہل خانہ اورملکی معیشت دونوں کے اچھے مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔

ایسے افراد پاکستان کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ یہ تو پاکستانی عوام کے لیے قابل فخر ہیں۔ لیکن ایسے افراد جو پاکستان میں جرائم اور کریشن کر کے بیرون ملک فرار ہوئے اور وہاں سیاسی پناہ لے لی اور ان ممالک کی شہریت حاصل کر لی۔ ایسے افراد نے ہمارے غیر مستحکم سیاسی نظام میں حکومتی کارپردازوں سے تعلقات بنائے اور کچھ عرصہ بعد پاکستان آ کر یہاں کی سیاست میں سرگرم ہو گئے۔

انھوں نے کمال مہارت سے اعلیٰ سرکاری عہدے بھی حاصل کیے۔ ایسے افراد کا عمل دخل روکنے کے لیے دہری شہریت کے قانون یا آئین میں ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔دہری شہریت کے حامل افراد میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ دوسرے اہم سرکاری عہدے دار بھی شامل ہیں۔اسی وقت کئی سینئیر بیوروکریٹ جن میں وفاقی سیکریٹری عہدے تک کے افراد شامل ہیں دہری شہریت کے حامل ہیں۔

حد تو یہاں تک ہے کہ بعض آئینی عہدوں پر بھی دہری شہریت کے حامل افراد متمکن ہیں۔بعض وفاقی اور صوبائی خود مختار اداروں کے سربراہ بھی دہری شہریت کے حامل ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایک حلف کے تحت اس ملک کے وفاددار ہونے کے پا بند ہیں،آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ ایسے افراد کو کس طرح پاکستان کی سلامتی اور اہم قومی رازوں کا امین قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں دہری شہریت کے حامل افراد کے حوالے سے آئینی ترمیم کو انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے۔ اس حساس اور اہم معاملے کو تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، قومی سلامتی کے اداروں کے سربراہان کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔

دہری شہریت کے حامل ان ممبران کو کوئی پبلک آفس نہ دیا جائے۔ اس طرح بیوروکریسی، مسلح افواج میں بھرتی یا قومی اداروں کی سربراہی کے لیے بھی انھیں نا اہل قرار دیا جائے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ صاحب رائے افراد اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے قوم کی راہنمائی کریں تاکہ اس بنیادی مسئلے کا ایسا قابل عمل راستہ ملے جس سے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی Satisfy ہوں اور ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کو بھی تقویت ملے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔