لاہور، جدہ، مکہ معظمہ

امجد اسلام امجد  اتوار 29 جنوری 2023
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

تقریباً ایک ہفتے سے رات کے وقت دھند نہ ہونے کے برابر ہو گئی تھی، اس لیے دھیان اس طرف گیا ہی نہیں کہ یہ وجہ بھی رکاوٹ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

ایئرپورٹ سیکیورٹی کے عزیزی طاہر سمیع اور پی آئی اے کے شعبہ تعلقات عامہ کے نگران برادرم اطہر حسن نے بھی اپنے امکانات کی فہرست میں اس کو داخل نہیں کیا تھا، سو ہمارا سارا دھیان اس طرف تھا کہ ساڑھے تین بجے تک خود کو اور بچوں کو بیدار اور ہوشیار کس طرح رکھا جائے، رات بارہ بجے کے قریب عزیزی طاہر سمیع کے مقرر کردہ گائیڈ وقار نے پہلی بار یہ اشارا دیا کہ آج دھندکا مزاج قدرے خراب ہے لیکن فی الوقت آپ کی پرواز وقت پر ہے مگر بہتر ہو گا کہ آپ پی آئی اے والوں سے اندر کی خبر لیتے رہیں، میں نے فوراً اس کے مشورے پر عمل کیا اور یہی سے اس داستان کی خرابی کا وہ عمل شروع ہوا جس نے اس سفر سے متعلق ہرچیز کی جگہ بدل دی۔

’’میزاب‘‘ گروپ کے احباب بالخصوص امتیاز بھائی نے ایئرپورٹ سے لینے کے بجائے جس ڈرائیور کا انتظام کیا تھا اس کا لوکل نمبر ہمیں متعلقہ سم خریدنے کے بعد ہی ملنا تھا کہ اس سے پہلے تک وہ کم و بیش ایک خلائی مخلوق کی طرح تھا، میں اگرچہ اپنے قدموں پر چل سکتا تھا مگر احتیاط اور تجربے کی وجہ سے میں نے ویل چیئر لینا زیادہ مناسب سمجھا کہ بعض اوقات امیگریشن تک کا فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور لمبی لمبی لائنوں سے بچنے کے لیے ویل چیئر کی مسافرت تمام شرکائے سفر کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی تھی مگر مجھے یہ یاد نہ رہا کہ سعودی عرب کے ہوائی اڈوں پر ہر آسان بات کو مشکل بنا کر پیش کرنا ایک آرٹ سمجھا جاتا ہے۔

سو ہوا یہ کہ دس بارہ ویل چیئر والوں کو سنبھالنے کے لیے کل ملا کر صرف تین اہل کار ڈیوٹی دے رہے تھے اور پورا جہاز خالی ہو جانے کے خاصی دیر بعد تک صرف تین ویل چیئرز مسافروں تک پہنچائی تھیں، اس پر ستم یہ کہ انھوں نے ایک کیئرٹیکر کے سوا باقی مسافروں کو بس پر سوار کرا کے امیگریشن کے لیے بھجوا دیا تھا، تقریباً 40منٹ کے ایک عجیب و غریب کنفیوژن کے بعد انھوں نے بالآخر ہمیں متعلقہ دروازے پر اتارا تو یہ مسافت چند قدموں سے زیادہ کی نہیں تھی کہ فوراً ہی میری بیگم فردوس، بہو رابعہ اور دونوں پوتے امیر ارہم اور موسیٰ علی ذی شان ہاتھ ہلاتے نظر آ گئے۔

’’میزاب‘‘ کے ایک نمایندے وہاں پہلے سے ہمارے منتظر تھے۔ انھوں نے ہمیں ایک ایسی لائن میں لگوا دیا جس میں ہم سے پہلے صرف تین افراد پر مشتمل کوئی مڈل ایسٹرن فیملی تھی یعنی اصولاً ہماری باری تین یا چار منٹ میں آ جانی چاہیے تھی، اب یہ ٹھیک سے پتہ نہیں چل سکا کہ خرابی کمپیوٹر میں تھی یا اس کو آپریٹ کرنے والے افسر میں کہ اس شیر کے بچے نے بار بار ٹیکنیکل پورٹ لینے کے تقریباً آدھا گھنٹہ لگا دیا یعنی نام نہاد معذوری کے اس ڈرامے کا اثر یہ ہوا کہ ہم اپنی فلائٹ کے آخری غیر معذور مسافر کے بھی تقریباً ایک گھنٹہ بعد اپنے سامان تک پہنچ پائے جو ہم سے زیادہ تنہائی محسوس کر رہا تھا۔

اب اس کے بعد مقامی سم تبدیل کرانے اور ڈرائیور تک پہنچنے کا مسئلہ تھا جس کے نمٹنے تک وہ وقت جدہ ایئرپورٹ پر ہی آ گیا جب ہمیں ابتدائی اندازے کے مطابق خانہ کعبہ میں عمرے کی ادائیگی کے کم و بیش درمیان میں ہونا تھا۔

رستے میں آنے والی ایک پنجاب ہوٹل نامی جگہ پر جلدی جلدی کھانا کھایا گیا کہ خواتین اور بچے دونوں اس کے بغیر آگے سفر کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ڈرائیور کراچی سے دس سال قبل آیا ہوا، ایک ادب دوست پٹھان نوجوان تھا جسے بروقت اطلاع نہ ملنے کی وجہ سے کئی گھنٹے ہمارا انتظار کرنا پڑا تھا، اس کی خوش مزاجی اور بچوں کی گرم جوشی کی وجہ سے سفر اچھا کٹ گیا البتہ منتظمین کی امجد پروری کی وجہ سے مکہ میں بھی ایک پریشانی ہماری منتظر تھی۔

ہوا یہ کہ کلاک ٹاور میں واقع سب سے اچھے ہوٹل میں ہماری بکنگ شفٹ کر دی گئی جس کی وجہ سے ایک کمرہ دوسری اور دوسرا بائیسویں منزل پر ملا جہاں تک پہنچنے کے لیے بار بار لفٹیں بدلنا پڑتی تھیں، سو ایک بار پھر وہ بہت بابرکت روحانی کیفیت اس غیرمتوقع اور قدرے غیرضروری عمل کی وجہ سے ایک طرح کی الجھن میں پڑ گئی جس کے لیے یہ سارا اہتمام کیا گیا تھا۔

معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ میں اس وقت تل دھرنے کی جگہ نہیں جب کہ مجھ سمیت دونوں خواتین پریشانی، بیماری اور تھکاوٹ کی وجہ سے اس دبائو میں چلنے کی پوزیشن میں نہیں تھا‘ بہت بحث مباحثے اور سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ خواتین ایک دو روز بعد بے شک اپنے پائوں پر چل کر بہتر حالت میں ایک عمرہ اور کر لیں مگر اس وقت یہی مناسب ہو گا کہ تین بڑے اور ایک بچہ یعنی موسیٰ ذی شان ویل چیئر پر یہ فریضہ سر انجام دیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی صورت قابل عمل نہیں تھی۔

سرکاری ویل چیئرز والے پورا معاوضہ لینے کے باوجود بچے کو ایڈجسٹ کرنے پر تیار نہیں تھے مگر جب میں نے حتمی فیصلہ سنایا کہ ہم پھر کسی اور سے معاملہ کر لیتے ہیں تو مسئلہ فوراً حل ہو گیا اور یوں موسیٰ بیٹے نے اپنی زندگی کا پہلا عمرہ قسط وار میری‘ اپنی دادی اور ماں کی گود میں بیٹھ کر کیا۔

ہجوم بہت زیادہ تھا مگر حرم کے ارد گرد اور صفا مروہ کی سعی کے لیے ویل وچیئرز کے خصوصی شریک ہونے کی وجہ سے ہم سب کو تسلی سے تفصیل سے دعائیں مانگنے کی فرصت اور مہلت مل گئی جیسا میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ میں نے پہلا عمرہ 1989 میں کیا تھا اور اس سے پہلے کا آخری شاید 2015 میں اس دوران میں حرم کے صحن اور ارد گرد کی عمارتوں میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں مگر اس بار بہت سی چیزیں بالکل نئی تھیں۔

ایک تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ حرم کے صحن میں صرف ان مردوں کو داخلے کی اجازت ہو گی جو عمرے کے لیے مخصوص دو سفید چادروں میں ملبوس ہوں گے جب کہ بیماروں اور معذوروں کے لیے ویل چیئر والی لائن اور پہلی منزل پر بیٹری سے چلنے والی زیادہ سے زیادہ دو مسافروں پر مشتمل خصوصی گاڑیاں ہوں گی جو ڈرائیور یا  اس کے بغیر کرائے پر حاصل کی جا سکتی ہیں، یہ اور بات ہے کہ اس سفر کا ایک چکر شاید حرم کے سات  چکروں کے ارد گرد ہی ہوتا ہے۔

ویل چیئر پر صحن حرم کے سات چکر البتہ نسبتاً کم مسافت کے ہیں، علی ذی شان اور عزیزی ابراہیم کے طواف مکمل کرنے کے دوران ہمارا عمرہ مکمل ہو گیا اور حیرت اور برکت کی بات ہے کہ اس کے دوران وہ تمام پریشانیاں بھی بالکل محسوس نہیں ہوئیں جن کے درمیان سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے تھے ، سو رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا گیاکہ اس کی خاص رحمت سے چھ میں سے تین افراد کو ایک بار پھر اور باقی تین کو پہلی بار یہ سعادت ملی، اس مبارک سفر کی باقی تفصیلات انشاء اللہ ساتھ ساتھ درج کرتا رہوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔