بلدیاتی فنڈز پر ڈاکے

محمد سعید آرائیں  پير 30 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سپریم کورٹ واضح کرچکی ہے کہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لیے حکومتوں کی طرف سے فنڈز دینا غیر قانونی ہے کیونکہ ترقیاتی کام کرانا ارکان اسمبلی کا کام نہیں ،ان کا کام قانون سازی ہے اور سڑکیں، راستے، نالیاں بنانا، فراہمی و نکاسی آب اور روشنی کا کام بلدیاتی اداروں اور بلدیاتی منتخب اداروں کا کام ہے۔

حکومت کو ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز فراہم نہیں کرنے چاہئیں۔ اس وضاحت کے باوجود حکومتیں اپنے ارکان اسمبلی کو سیاسی رشوت کے طور پر ترقیاتی فنڈز دے رہی ہیں جس کے باعث بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہیں ہی مشکل سے ادا کر رہے ہیں تو وہ ترقیاتی کام کہاں سے کرائیں۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے 2001 میں ملک میں بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام قائم کیا تھا اور انھیں وفاقی فنڈز فراہم کیے تھے اور ارکان اسمبلی کو وہ یہ فنڈز دینے کے خلاف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی فنڈز ضلعی حکومتوں کو ملنے چاہئیں ارکان اسمبلی کا یہ حق نہیں ہے۔

2002 میں جب جنرل مشرف نے عام انتخابات کرائے اور ملک میں مسلم لیگ (ق)کی حکومت قائم کرائی تو ارکان اسمبلی نے بااختیار ناظمین اور ضلعی حکومتوں کے خلاف سازشیں شروع کی تھیں کہ وہ بھی عوام کے منتخب نمایندے ہیں انھیں اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے پہلے کی طرح فنڈز فراہم کیے جائیں۔

جنرل پرویز مشرف کو ارکان اسمبلی کی حمایت چاہیے تھی اس لیے وہ ارکان کے دباؤ میں آگئے اور انھوں نے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کرکے ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز بحال کردیے تھے۔

ضلعی حکومتوں کے پہلے چار سالوں میں ضلعی حکومتیں بااختیار اور منتخب ناظمین کو مالی و انتظامی اختیارات حاصل تھے۔ کمشنری نظام ختم کرکے گریڈ بیس کے کمشنروں، صوبائی سیکریٹریز اور گریڈ 17,18,19 کے ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کو ناظمین کا ماتحت کرکے ڈی سی اوز اور ٹاؤن افسر بنادیا گیا تھا اور منتخب ناظمین ارکان اسمبلی کی مداخلت برداشت کرتے تھے نہ انھیں اہمیت دیتے تھے جس پر بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی ضلعی نظام کے خلاف تھے۔

2005کے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کیے گئے پھر بھی ناظمین موجودہ بلدیاتی اداروں کے عہدیداروں کے مقابلے میں بااختیار تھے۔

ضلعی ناظمین کے اختیارات دیکھ کر متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ناظمین کا انتخاب بھی لڑا تھا کیونکہ ارکان اسمبلی کی عوامی اہمیت ختم ہوگئی تھی لوگ بھی انھیں اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ ناظمین سے باآسانی مل کر اپنے مسئلے حل کراتے تھے اور لوگوں کو ناظمین باآسانی دستیاب تھے جب کہ ارکان اسمبلی کا تو یہ کام تھا کہ وہ منتخب ہو کر اپنے حلقوں سے دور تہوار یا ضرورت پر ہی اپنے حلقوں میں آتے تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اقتدار میں لائے جانے سے قبل ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے خلاف تھے مگر بعد میں انھوں نے بھی یوٹرن لیا اور ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز بڑھا دیے بلکہ اقربا پروری کرتے ہوئے وفاق اور پنجاب و کے پی کے حکومتوں نے صرف اپنے ارکان کو زیادہ فنڈز دیے۔

پی ٹی آئی حکومتوں نے اپنے اتحادیوں کو بھی اپنی پارٹی ارکان جتنے فنڈز نہیں دیے اور پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے ترقیاتی فنڈز میں من مانی کی اور ماضی کی طرح اپنے حامیوں کے علاقوں میں کام کرائے۔ پی ٹی آئی حکومت نے آتے ہی پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے پہلے فنڈز روکے پھر وہ بلدیاتی ادارے ہی توڑ دیے تھے کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی عہدیداروں کی واضح اکثریت تھی۔

ہر حکومت نے بلدیاتی منتخب عہدیداروں کو نظرانداز کیا اور صرف ارکان اسمبلی کو اہمیت دی کیونکہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ ارکان اسمبلی ہی کے ذریعے ہی منتخب ہوتے ہیں اور سارے بلدیاتی ادارے ان ہی کے ماتحت ہو جاتے ہیں۔

ہر حکومت بلدیاتی اداروں کو سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلانا چاہتی ہے اور بلدیاتی انتخابات نہیں کراتی تاکہ وہاں من مانی کرسکے۔ منتخب بلدیاتی نمایندے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی طرح بے بس نہیں ہوتے اور حکمرانوں سے مسائل کے حل کے لیے فنڈز دینے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ انھیں عوام میں جانا ہوتا ہے انھیں عوام کا احساس رہتا ہے۔

منتخب بلدیاتی نمایندے غیر جمہوری حکمرانوں کی ضرورت ہوتے ہیں اور اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں انھیں منتخب بلدیاتی نمایندوں کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے مگر سیاسی حکمرانوں کو نہیں ہوتی۔

سیاسی حکمران بلدیاتی انتخابات نہیں کراتے تاکہ بلدیاتی فنڈز سیاسی رشوت کے طور پر ارکان اسمبلی کو دے کر انھیں اپنی حمایت پر مجبور رکھیں۔

ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی کو دینا غیر قانونی مگر ارکان اسمبلی کو یہ فنڈز ہر حکومت فراہم کرکے سیاسی رشوت دیتی آ رہی ہے۔

اپوزیشن ارکان کو یہ فنڈز نہیں دیے جاتے اسی لیے اپوزیشن ارکان کو فنڈز حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ کی حمایت کرنا پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ ارکان اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کو غیر قانونی قرار دیتی ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔

عمران خان بھی اس فنڈ کو غیر قانونی قرار دیتے تھے مگر اقتدار میں آ کر وہ اپنے اعلان بھول گئے اور صوبہ کے پی کے میں ترقیاتی فنڈز ہر سال خرد برد کیے جاتے رہے مگر کسی رکن کو پوچھا تک نہیں گیا۔

فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک آزاد سینیٹر نے خیبرپختون خوا میں ترقیاتی فنڈز کی کرپشن کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ مسئلہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی زیر غور ہے۔

مذکورہ سینیٹر کے مطابق پی ٹی آئی حکومت میں کے پی کے 24 پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی کو اربوں روپے ترقیاتی فنڈز ملے مگر ترقیاتی کام برائے نام ہوئے۔سینیٹر کے مطابق نوشہرہ میں پرویز خٹک کو حلقے کے لیے دو ارب روپے دیے گئے۔

کے پی کے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کو یہ فنڈز نہیں دیا گیا کیونکہ وہ اپنی حکومت کے غلط کاموں پر تنقید کیا کرتے تھے۔

ملک بھر میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر کھربوں روپے سیاسی رشوت کے طور پر دیے جاچکے مگر کام کروڑوں کے بھی نہیں ہوئے اور رقم ہڑپ اور خرد برد کرلی گئی، یہ رقم اگر بلدیاتی اداروں کو دی جاتی تو کام ہوتے اور نظر بھی آتے۔

ہر سیاسی حکومت میں یہ غیر قانونی فنڈز اپنوں کو بانٹے گئے اور بلدیاتی اداروں کو محروم رکھا گیا جن کا یہ اصلی حق تھا مگر سلب ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔