عدالتی ریلیف ملنے کے باوجود شکوے

محمد سعید آرائیں  منگل 31 جنوری 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

مختلف مقامات پر ملک میں درج مقدمات میں گرفتاری کے بعد عدالتوں کے ضمانتیں اور ریلیف ملنے پر عدالتوں کا احسان ماننے کے بجائے ریاستی اداروں پر تنقید کر کے خود کو بڑا لیڈر سمجھنے والے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے لاہور میں انتخابی مہم کے دوران کہا ہے کہ عدالتیں انصاف نہیں دے سکتیں تو انھیں بند کردیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور انھیں انصاف نہیں ملا۔

واضح رہے کہ اعلیٰ عدالتوں نے ملک بھر میں درج کیے گئے ایک ہی الزام کے تحت درج کرائے گئے تمام مقدمات ختم کرا کر اعظم سواتی کو بڑا ریلیف دیا ہے جو اسلام آباد ، کوئٹہ اور کراچی میں ریاستی اداروں کے خلاف تقریریں کرنے کے الزام میں قید تھے اور عدالتوں میں انھیں نہ صرف مقدمات سے ریلیف ملا اور کچھ دنوں کی اسیری کے بعد ضمانت پر رہائی ملی مگر وہ اعلیٰ اداروں پر تنقید سے باز نہیں آئے اور خود کو بڑا لیڈر سمجھ رہے ہیں ۔

حکومت میں شامل متعدد وزیروں کا کہنا ہے کہ ہمیں تو پی ٹی آئی حکومت میں جھوٹے مقدمات میں گرفتاری کے بعد فوری ریلیف نہیں ملا تھا بلکہ مہینوں ناحق قید رہنے کے بعد ہی ضمانت پر رہائی ملی تھی۔

میاں جاوید لطیف، خواجہ سعد رفیق اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو یہ شکایت ضرور ہے کہ انھیں جھوٹے مقدمات میں عمران خان نے نیب کے ذریعے گرفتار کرایا تھا جب کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے صرف دو رہنماؤں نے ملک کے متعدد اداروں پر کھلے عام نہ صرف تنقید کی بلکہ غداری تک کے الزامات لگائے جس پر صرف شہباز گل اور اعظم سواتی ہی مقدمات درج ہونے پر گرفتار ہوئے جب کہ عمران خان بے شمار مقدمات کے اندراج کے بعد بھی گرفتاری سے محفوظ ہیں۔

عمران خان کو گھر بیٹھے ضمانت مل جاتی ہے اور انھیں عدالتی ریلیف ملنے کی حد تو یہ ہے کہ عمران خان کو لاہور میں بیان دینے کی بھی عدالتی سہولت ملی اور انھیں گھر بیٹھے خواجہ آصف کے خلاف ہتک عزت کے اپنے ہی درج کرائے گئے مقدمے میں دس سال بعد بیان ریکارڈ کرانے کی عدالتی سہولت حال ہی میں ملی ہے۔

الیکشن کمیشن عمران خان پر اس قدر مہربان رہا کہ آٹھ سال تک فارن فنڈنگ کے معاملے پر فیصلہ نہیں دیا اور عمران خان نے اپنی حکومت میں ہی چیف الیکشن کمیشن اور کمیشن پر سنگین الزامات عائد کرنے شروع کر دیے تھے اور اقتدار سے محرومی کے بعد بھی یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں تیزی آئی ہے۔

عدالتوں نے عمران خان کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو عمران خان کے خلاف فیصلوں سے روک دیا ہے۔ عدالتوں میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سمیت متعدد مقدمات زیر سماعت ہیں اور انھیں عدالتوں سے ریلیف ملا، اسلام آباد میں توہین عدالت کے باوجود  کے خلاف کوئی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

پی ٹی آئی کے رہنما آئے دن ریاستی اداروں اور عدالتوں کے خلاف بولتے ہیں مگر انھیں توہین عدالت کا نوٹس نہیں ملا اور اب بھی صرف وارننگ ملی ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد کی طرف اپنے لانگ مارچ کے دوران سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا تھا مگر پھر بھی انھیں بڑا ریلیف بغیر مانگے ملا۔ عدالتوں سے انھوں نے رعایت مانگی مگر ان کے خلاف مقدمات ہی ختم کر دیے گئے۔

عدالت کے فیصلے سے پی ٹی آئی کو پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا موقعہ ملا جب کہ وفاقی حکومت کی سپریم کورٹ میں دی گئی متعدد درخواستوں کی سماعت کا نمبر ہی نہیں آیا۔ اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیر اعلیٰ کی درخواست دیتے ہی ریلیف ملا اور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی کابینہ سمیت بحال کر دیے گئے ۔

پی ڈی ایم اور دیگر کی شکایات ہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ انھیں فوری عدالتی ریلیف مل جاتا ہے۔ بہت کم ہی ہوا ہے کہ انھیں عدالتی ریلیف ان کی مرضی کے مطابق نہ ملا ہو۔ عدالتوں نے پی ٹی آئی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کو شکایتوں کا موقعہ نہیں دیا اور ریلیف دیا ۔ عمران خان اور پی ٹی آئی سب پارٹیوں پر بازی لے گئے ہیں اور انھوں نے سیاسی معاملات عدالتوں میں لے جانے کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

ان ہی کی وجہ سے عدالتوں پر سیاسی مقدمات کا بوجھ بڑھا ہوا ہے کیونکہ یہ ہر معاملے میں اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر احتساب عدالتوں، ہائی کورٹس اور الیکشن کمیشن کے فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے عادی ہو چکے ہیں جب کہ اکثر ان ہی کی مرضی کے فیصلے صادر بھی ہوئے جنھیں یہ حق کا فیصلہ قرار دیتے ہیں اور نہ ملنے پر تنقید کرتے آئے ہیں۔عدالتوں سے مسلسل ریلیف ملنے والوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ عدالتوں سے شکوے کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔