امریکا چین محاذ آرائی اور اْس کے مضمرات

شکیل فاروقی  منگل 31 جنوری 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ساری دنیا پر ریاست ہائے متحدہ (یو ایس اے) کو بالادستی حاصل تھی جس کی وجہ سے طنز و مزاح کے معروف شاعر سید محمد جعفری نے کہا تھا کہ یو این او میں صرف او کو چھوڑ کر سب کچھ یو ایس کا ہی ہے۔

اْن کا کہنا تھا کہ ’’ یو ایس کا ہے سبھی کچھ، باقی سب ہے نو ہی نو‘‘ پھر وقت اور حالات نے ایک نئی کروٹ لی اور سوویت یونین کی شکل میں ایک نئی سپر پاور نے جنم لیا اور جس کے ساتھ ہی امریکا کی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ اِس کے بعد دنیا میں دو بلاک معرضِ وجود میں آگئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کی طاقت زور پکڑتی گئی اور امریکا کے مزاج ٹھکانے پر آنے لگے پھر یہ ہوا کہ سوویت یونین نے ’’ لاء کا ‘‘ نامی کتیا کو خلا سے گزار کر چاند پہ اتارنے کا کامیاب تجربہ کر کے امریکا کو مات دے دی جب کہ اِس کے برعکس امریکا کے بار بار کیے گئے تجربے ناکام ہوچکے تھے۔

یہ بعد کی بات ہے کہ امریکا نے خلائی جہاز کے ذریعہ نیل آرم سٹرونگ کو چاند پر اتارنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ سوویت یونین کی ترقی کا سفر مسلسل جاری رہا تا آنکہ وہ امریکا کی ٹکر پر آگیا۔

دوسری جانب امریکا کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی رہی اور وہ دن آگیا جب امریکا آگے نکل کر سپر پاور بن گیا اور دنیا میں اْس کا کوئی مد مقابل نہیں رہا۔ خوش قسمتی سے یو ایس کی معاشی، سیاسی، عسکری اور ثقافتی قوت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب پاکستان اْس کی چھتری تلے آگیا اور امریکا کے ساتھ مختلف معاہدے کرکے بہت سے فوائد حاصل کیے۔ جب تک پاکستان امریکا کی جی حضوری کرتا رہا تب تک سب کچھ ٹھیک رہا اور جب اْس نے اْس کی ہاں میں ہاں نہ ملائی تو اْسے کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جو امریکا کی دسترس سے باہر ہو اْسے اپنی جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج کی بِنا پر دنیا بھر میں بالادستی حاصل رہی۔ امریکا کا دفاعی بجٹ دنیا کے کئی ممالک کے مجموعی بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔

اِس کا جی ڈی پی دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے اور اِس کے ڈالر سے زیادہ کوئی کرنسی مضبوط نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے حالات بھی بدل رہے ہیں اور چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے، اگرچہ چین دنیا کی دوسری سپر پاور بن چکا ہے تاہم اِس کی اوسط آمدنی ابھی مغربی ممالک کے برابر نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ اِس کی بڑی آبادی ہے۔

چین میں کووڈ کے شدید پھیلاؤ نے اِس کی ترقی کی رفتار پر خاصا اثر ڈالا ہے۔ امریکا کو چین کی ترقی سے شدید تشویش لاحق ہے اور وہ اِس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح چین کو لگام دی جائے۔ اْس کی حکمتِ عملی کا یہ سب سے اہم جزو ہے۔

واشنگٹن اِس بات سے خوفزدہ ہے کہ مطلق العنان نظام جمہوریتوں پر غالب نہ آجائے ، چناچہ امریکا ایسے اقدامات میں مصروف ہے جن کے ذریعے چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو سْست روی میں تبدیل کیا جاسکے۔

مثال کے طور پر امریکا اور تائیوان کے درمیان فوجی تعاون چین کو جامہ میں رکھنے کی امریکی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ امریکا اپنی عینک سے تائیوان کو ایک آزاد ریاست کی شکل میں دیکھتا ہے جب کہ اِس کے برعکس چین کی نظر میں تائیوان بجا طور پر اِسے اپنے ایک حصہ ہونے کا دعویدار ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک چین کے موقف کے حامی ہیں۔

سیاسی دانش کا تقاضہ ہے کہ تائیوان کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر رہنے دیا جائے۔ تائیوان کے مسئلہ پر تناؤ میں کمی چینی قیادت کے اوپر سے تائیوان کے بعجلت دوبارہ اتحاد کا بوجھ ہلکا کردے گی۔

چین ایک فوجی ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش میں ہے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں تائیوان میں کوئی داخلی کشمکش کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ لاحق ہے۔تائیوان کی اکثریت کی ترجیح ہے کہ وہاں ایک جمہوری طرزِ حکمرانی قائم رہے اور مطلق العنان طرزِ حکومت غالب نہ آئے اور کمیونسٹ حکومت کا غلبہ نہ ہونے پائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اور تائیوان کے تعلقات میں چند بڑے تضادات ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشمکش کے باوجود مدتِ دراز سے تجارت اور کاروبار کو فروغ حاصل ہے جو وہاں کے عوام کے مفاد میں ہے۔ یہ بھارت اور پاکستان کے لیے ایک سبق ہے جو عرصہ دراز سے نظر انداز ہورہا ہے۔

شروع شروع میں تائیوان میں عسکری قوت کی حکمرانی تھی جس کے بعد بتدریج سرمایہ دارانہ نظام آیا اور پھر جمہوری دور آیا۔دنیا کے اْن ممالک کے تجربہ سے جہاں بالغ جمہوریت قائم ہوئی یہ ثابت ہوا ہے کہ دو طرح کی طاقتیں ہیں: خوشحالی اور آزاد جمہوریت جن کے نتیجہ میں ایک جائز حکومت پروان چڑھتی ہے۔

اِس میں ہماری جیسی نیم پختہ جمہوریت کے لیے ایک سبق مضمر ہے اور وہ یہ کہ کس طرح سیاسی بلوغت اور معاشی استحکام کا حصول کیسے ممکن ہے۔ امریکا اور تائیوان کے درمیان قریبی تعاون ستر سال سے بھی زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔

تائیوان کی جانب سے چین کے ساتھ رویہ میں ایک جارحانہ انداز اختیار کرنا زیادہ سے زیادہ گزشتہ دس سال پرانا ہے۔ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین مخالف پالیسی کو ہوا دی اور تائیوان کو ایک سخت موقف اختیار کرنے پر اْکسایا۔

چین کے خلاف آسٹریلیا ، بھارت ، جاپان اور امریکا مل کر ایک گروپ تشکیل دے رہے ہیں جس کا مقصد چین کے اثرات کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسری جانب اِس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے چین اور روس اکٹھے ہوکر ایک مشترکہ قوت تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔

گزشتہ موسمِ گرما میں چین اور روس نے مشترکہ عسکری مشقیں کیں جن میں 10000 چینی اور روسی فوجیوں نے حصہ لیا۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ چین کے صدر نے ایک زیادہ زوردار قومی سیکیورٹی پالیسی اختیار کی ہے۔ چین اور روس کے اتحاد نے دونوں ملکوں کی قوت اور وزن میں اضافہ کردیا ہے جو کہ امریکا اور اْس کے اتحادیوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔