سفر ہے شرط

غلام محی الدین  منگل 31 جنوری 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

’’جو کوئی سیاحت سے لوٹتا ہے، وہ ویسا نہیں رہتا جیسا سیاحت پر روانہ ہوتے وقت تھا۔‘‘ یہ ایک چینی کہاوت ہے اور اس اختصار کے میں بھی بلاکی معنویت اور دانش کا خزانہ سموئے ہوئے ہے۔ تحصیل علم اور تعمیر ذات کے عمل میں انسان کو بہت سے ذرایع میسر ہو سکتے ہیں۔

درسگاہیں دنیا بھر میں اخلاقی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہیں۔ دنیا کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں لائبریریاں تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے لیے موجود ہیں بلکہ اب کتابوں سے استفادہ کے لیے لائبریری جانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ آن لائن لائبریری آپ کے ہاتھ میں ہے۔

اس سے بھی بڑا ذریعہ اہل علم و دانش کی محفلوں اور مجالس میں حاضری ہے۔ اگر کسی موضوع پر ذہنی تشفی کے لیے مہینوں پڑھنا پڑسکتا ہے تو علم و دانش میں مستند حیثیت منوا لینے والوں کی صُحبت میں اُس سے کہیں زیادہ گہرائی کے ساتھ معاملے کو سمجھنے کا اہتمام محض ایک نشست میں ممکن ہوجاتا ہے۔

حصول علم کا ایک اور ذریعہ سیاحت بھی ہے جو باقی تمام ذرایع اور سرگرمیوں سے بالکل جُدا اور منفرد ہے۔ شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں‘ ’’قوت مشاہدہ سے عاری سیاح اسی طرح ہے جیسے پروں کے بغیر پرندہ۔‘‘ یعنی اس تجربے سے فیضیاب ہونے کے لیے قوت مشاہدہ کا کسی نہ کسی سطح پر موجود ہونا بھی لازم ہے۔

سیاحت بذات خود ایک مقصد تو ہے ہی، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کسی اور مقصد کے لیے مسافت لازم ہوجاتی ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے سفر اختیار کیا جاتا ہے وہ مقصد بھلے حاصل نہ بھی ہو، سفر کے نتیجے میں حاصل ہونے والا علم و دانش کا خزانہ بہرحال مسافر کو حاصل ہو کر رہے گا، شرط یہ ہے کہ وہ اپنی ظاہری اور باطنی آنکھوں کو کھلا رکھے۔

یہاں مجھے ایک انگریز سیاح کے سفر کا تذکرہ یاد آرہا ہے جس نے زندگی میں شاید ہی کبھی سیاحت کے بارے میں سوچا ہوگا لیکن قدرت اُسے گھیر گھار کے اس طرف لے آئی، اور جب وہ اس کام پر نکلا تو اس نے اپنی ظاہری اور باطنی، دونوں طرح کی آنکھوں کو کھلا رکھا جس کے نتیجے میں وہ کچھ حاصل ہوا جو اس کے سفر کے اولین مقاصد میں بھی شامل نہ تھا۔

اس شخص کا نام ولیم مور کرافٹ (Willim Moorcroft) تھا۔ جس نے لاہور کا شالا مار باغ دیکھا ہے اسے باغ کے دائیں حصے میں تہہ خانے والے چھوٹے سے کمرے پر لگی سنگ مرمر کی تختی ضرور یاد ہوگی جس پر انگریزی زبان میں یہ تحریر کندہ ہے ’’یہ پیولین مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کرایا تھا، یہاں معروف برطانوی سیاح ولیم مور کرافٹ نے مئی 1820میں قیام کیا جو مہاراجہ سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ وہ ترکستان جاتے ہوئے یہاں ٹھہرا اور 1825 میں افغان تُرکستان میں وفات پائی۔‘‘

مور کرافٹ لداخ میں وارد ہونے والا پہلا یورپی باشندہ تھا۔ یہ برطانیہ کی کاؤنٹی لنکا شائر کے قصبے ’اور مکرسک‘ میں 1767 میں پیدا ہوا۔ وہ اپنی ماں کا ناجائز بچہ تھا۔ اس نے سرجن بننا چاہا، لیکن انھی دنوں انگلستان میں مویشیوں کی ایک نامعلوم بیماری پھوٹ پڑی۔

اس ہنگامی حالت میں اس نے اپنے علاقے میں اتنی اچھی کارکردگی دکھائی کہ مقامی زمینداروں نے حیوانات کا معالج بننے کی شرط پر اُس کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے کی پیشکش کردی۔ اس نے فرانس سے ویٹرنری ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور لندن میں اپنا اسپتال کھول لیا۔

اس نے گھوڑوں کی بیماریوں کے علاج اور ان پر عمل جراحی کے شعبے میں نئے طریقے متعارف کرائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظر اس پر پڑتی ہے تو اسے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے لیے کلکتہ بُلا لیا جاتا ہے۔ یہاں اس کی زندگی میں نیا موڑ آیا۔

اس کو یہ ذمے داری دی گئی کہ فوج کے لیے ہر برس آٹھ سو ایسے گھوڑے فراہم کرے جو 252 پاؤنڈ وزن کے ساتھ طویل فاصلے طے کر سکیں۔ 1811ء میں وہ خیبر پختونخوا آیا لیکن صرف گھوڑوں کی تلاش کے بجائے یہاں کی تہذیب، ثقافت، سیاست اور قدرتی وسائل پر بھی معلومات جمع کیں۔دریائے ستلج کی قدیم گذر گاہ کی تلاش میں وہ تبت میں مانسرور جھیل تک پہنچا۔

اسے وہاں کشمیری بھیڑوں کا گلہ نظر آیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کی اُون معیار میں بہترین ہے۔ بھیڑیں وہ ساتھ لے آیا اور انھیں اسکاٹ لینڈ بھیجا لیکن وہ تمام مر گئیں۔ اس شخص کی دی ہوئی معلومات کی بنا پر ہی اس خطے میں ’’گریٹ گیم‘‘کی اولین صورت گری ہوئی کیونکہ اس نے اپنی حکومت کو روس کی ممکنا تجارتی دلچسپیوں سے آگاہ کیا تھا۔

جب اسے معلوم ہوا کہ تُرکستان کے شہر بخارا میں گھوڑوں کی عالمی منڈی ہے تو اُس نے ترجمانی کے لیے ایک ایرانی میر عزت اللہ اور لداخ کے حاجی نجف علی کو معاوضے پر ساتھ لیا اور ’کیپٹن ولیم ہیرسے‘ کے ساتھ ہندو سوامیوں کا روپ دھار کر ریاست ’گڑھوال‘ سے اپنے سفر کا آغاز کردیا۔ اچھا یہ ہوا کہ مور کرافٹ راستے میں آنے والی ہرچیز چرند پرند، معدنیات، رسم و رواج، وسائل، سیاسی، سماجی اور علمی کوائف پر اپنے تاثرات قلمبند کرتا گیا۔

اس نے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں سے ایسے پودے اکٹھے کیے جن میں سے بیشتر معلوم نباتات میں شامل ہی نہ تھے۔ ان میں سے Gentiana Moorcroftiana اور Salvia Moorcroftiana کا نام اس کے نام پر رکھے گئے۔

اس کی مشاہداتی تحریریں دس ہزار صفحات کی صورت میں انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر سفرنامہ”Moorcroft Collection” کے نام سے 1841میں شایع ہوا تھا۔ ان کے ایرانی ساتھی میر عزت اللہ اور حاجی نجف علی کے مشاہدات بھی ’ایشیاٹک جرنل‘ میں شایع ہوئے۔ چین کی حکومت مور کرافٹ کی ٹیم کو چین سے گزر کر بخارا جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی جس بنا پر یہ ٹیم اجازت کے انتظار میں دو برس تک لداخ میں بیٹھی رہی۔ وہ یہاں بہترین معالج کے طور پر جانا جانے لگا۔

بعد میں کشمیر اور پھر افغانستان کے راستے یہ شخص بخارا جا پہنچا لیکن اسے اپنے مقصد میں محض جزوی کامیابی ہی حاصل ہو سکی اور اُس معیار کے گھوڑے نہ مل پائے جو نسل کَشی کے لیے درکار تھے۔

جب یہ شخص روانہ ہوا تو ہندوستان کا گورنر جنرل لارڈ ہسنگز خود اس منصوبے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ سرکار نے سپاہیوں سمیت 50 اہلکاروں کی ٹیم ساتھ روانہ کی تھی لیکن مقاصد میں ناکامی کے باعث وہ اور اس کے کئی اہم ساتھی کسمپرسی کی حالت میں جان سے گئے۔

واپسی پر شمالی افغانستان کی آخری حد پر واقع افغان ترکمان شہر اندخوی میں اس کا انتقال ہوا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس کے مشاہدات نے کئی سمتوں میں پیش قدمی کی نئی راہیں ہموار کیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔