- عمران خان ریلی؛ امریکا کا پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار
- نگراں وزیراعلی کے پی کا مرکز کو خط، صوبے کے واجب الادا اربوں روپے کا مطالبہ
- وزیراعظم نے ٹیلی اسکول پاکستان ایپلی کیشن کا افتتاح کردیا
- پاکستان کیخلاف افغان اسکواڈ کا اعلان، راشد خان کپتان مقرر
- لاہور میں بس ہوسٹس کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- کراچی میں غربت سے تنگ آکر لڑکی نے خودکشی کرلی
- میری موت کو حادثہ قرار دینے کا منصوبہ تھا، عمران خان
- وسیم اکرم نے پاکستان کو ’’ون ڈے ورلڈکپ‘‘ کیلئے فیورٹ ٹیم قرار دیدیا
- منڈی بہاؤ الدین میں تاریخ کی شدید ژالہ باری نے شہریوں کو حیران کر دیا
- عمران خان پر درج دہشت گردی کیسز کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
- ٹرمپ کے اہل خانہ نے بیرون ملک سے ملنے والے 100 سے زائد قیمتی تحائف ہڑپ لیے
- رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلیے رویت کمیٹی کا اجلاس کل ہوگا
- ٹی ٹی پی میں بڑھتے جانی نقصان کی وجہ سے پھوٹ پڑ گئی
- افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوگیا لیکن کلاسیں ویران ہیں
- عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
- عمران خان لاہور ہائیکورٹ میں پیش، نیب و دہشتگردی کیسز میں حفاظتی ضمانت منظور
- تحریک انصاف کے رہنماؤں کی غیر ملکی سفیروں سے ملاقات، الیکشن پر تبادلہ خیال
- لیجنڈز لیگ؛ آفریدی نے ٹرافی ’’افغان بھائیوں‘‘ کے نام کردی
- زرعی فارمنگ کیلئے پاک فوج سے بہتر کوئی ادارہ نہیں، اوکاڑہ میں کسان ریلی
- بزنس مین نے میسی کے مداح کو فٹبال تھیم والا گھر تحفے میں دیدیا
معاشی مسائل کا مستقل حل

مقامی انڈسٹری اور خاص طور پر میڈ اِن پاکستان کو پروموٹ کیا جائے۔ (فوٹو: فائل)
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اللہ پاک کے کرم سے وسائل سے مالا مال ہے۔ لیکن اس وقت ملک ان حالات سے دوچار ہے کہ کسی وقت بھی اس کو دیوالیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
ملک عزیز دیوالیہ ہونے کے اثرات سے بہت حد تک متاثر نظر آرہا ہے۔ بینک ایل سیز پہلے ہی بند کرچکے ہیں، جس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔ اگرچہ ان حالات کی ذمے دار ہر سیاسی پارٹی دوسری پارٹی کو قرار دیتی ہے۔ لیکن درحقیقت ملک اس نہج پر کسی ایک فرد کی وجہ سے نہیں پہنچا بلکہ اس ملک کی بربادی میں قوم کا اجتماعی ہاتھ ہے۔
پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے اندیشے کے پیچھے جہاں کئی عوامل کارفرما ہیں، وہیں پاکستان میں انتہائی زیادہ درآمدات کا بھی ہاتھ ہے۔ ہم زندگی کے کم وبیش ہر شعبے کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے لاکھوں ڈالرز خرچ کرتے ہیں اور دیگر ممالک سے اشیا درآمد کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ملک کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس عدم توازن کو پورا کرنے کےلیے ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ اس دوران اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے نہ تو اس طرف کوئی خاص توجہ دی اور نہ ہی ٹھوس اقدامات کیے گئے جس سے یہ کوشش کی جاتی کہ ہمارا انحصار درآمدات پر کم سے کم ہو۔
اگر حکومتیں ملک میں ایسی پالیسیاں بناتی جس کے تحت مقامی انڈسٹری کو فوقیت دی جاتی، بالخصوص کاٹیج انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ اس ملک میں کافی زرمبادلہ کمایا جاسکتا تھا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسی پالیسیاں بنائے جس میں مقامی انڈسٹری اور خاص طور پر میڈ اِن پاکستان کو پروموٹ کیا جاسکے۔ چھوٹے کاروباری حضرات کو بلاسود قرض فراہم کیے جائیں، جو اس سیکٹر میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
زراعت ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی صلاحیت سے ابھی تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ زرعی شعبے میں تحقیق پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے یہ شعبہ اتنا پیداواری اور فائدہ مند ثابت نہیں ہوا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ملک میں فی ایکڑ پیداوار بھی جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ حالانکہ اس سیکٹر میں اتنا پوٹینشل ہے کہ یہ شعبہ پاکستان کی مشکلات حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کا عملی حل یہ ہے کہ ملک کے اندر ایسی فصلوں کا انتخاب کیا جائے، جن کے اگانے سے ہمارا انحصار درآمدات پر کم سے کم ہو۔ پچھلے مالی سال میں ہم نے تقریبا 3.6 بلین ڈالرز کا صرف خوردنی تیل درآمد کیا۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ تیل دار اجناس اگا کر وطن عزیز کا زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے اور اس کےلیے محکمہ زراعت کے تحقیقاتی اداروں بشمول ذیلی ادارہ توسیع زراعت کو بہتر اور جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ ایگری بزنس پر توجہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ فصلوں سے حاصل شدہ خام مال کی ویلیو ایڈیشن کی جاسکے اور اسے بیرون ملک برآمد کیا جاسکے۔
حالیہ خدشات کو فوری دور کرنے کےلیے بچت اور اعتدال بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں پر کنجوسی سے منع کیا، وہیں کفایت شعاری پر بھی زور دیا گیا ہے۔ قوم ایک طرف تو مہنگائی کا رونا روتی ہے اور دوسری طرف اگر تفریح گاہوں اور خریداری کے مراکز کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہو اور ہمارے ملک میں کسی قسم کا بحران موجود نہ ہو۔ ان حالات میں بھی امپورٹڈ سامان کی مانگ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستان نے پچھلے مالی سال میں 20 بلین ڈالرز پٹرولیم کی درآمد پر خرچ کیے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان خراب حالات میں بھی پچھلے 6 ماہ کے درران 1.2 بلین ڈالرز کی پرتعیش گاڑیاں درآمد کی گئیں۔ بحیثیت قوم ہمیں ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور بچت کو قومی سطح پر اپنانا ہوگا۔ اس عمل میں ان تمام سیاسی عہدیداروں اور افسران کو بھی اپنے اخراجات کم سے کم رکھنے ہوں گے، جو اخراجات وہ فرائض کی انجام دہی کے علاوہ مراعات کے طور پر لیتے ہیں۔ بچت کو اپنانے کے دیگر فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ملک کو بجلی کی پیداوار کےلیے کم سے کم امپورٹ بل ادا کرنا پڑے گا۔
ان اقدامات کے علاوہ بھی کئی ایسے امور ہیں جنھیں اپنا کر ملک کو فائدہ بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔ حکومت صرف ان شعبوں پر بھی فوری طور مرکوز کرے تو کئی بلین ڈالرز کی بچت کی جاسکتی ہے اور ملک عزیز کو قرض کی دلدل سے چھٹکارہ دلایا جاسکتا ہے۔ ان اقدامات کےلیے کسی راکٹ سائنس کی نہیں بلکہ نیک نیتی کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔