بلدیاتی قیادت، اقلیت کی نمایندگی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 1 فروری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 15 جنوری کو پولنگ ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے 9 دن بعد حتمی نتائج کا اعلان کیا۔

اس سست طریقہ کار کی بناء پر نتائج کی شفافیت کا سوال اہمیت اختیار کرگیا۔ کراچی کو 246 یونین کونسل میں تقسیم کیا گیا ہے مگر 11 امیدواروں کے انتقال کی بناء پر 235 یونین کونسلز میں ووٹنگ ہوئی اور الیکشن کمیشن نے 229 یونین کونسل کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا۔

الیکشن کمیشن کے ترتیب کردہ اعداد و شمار کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے چار اضلاع ملیر، مغربی کراچی، جنوبی کراچی اور کیماڑی میں اکثریت حاصل کی۔ جماعت اسلامی نے تین اضلاع سینٹرل کراچی، مشرقی کراچی اور کورنگی میں قطعی اکثریت حاصل کی۔

انتخابات میں 1.2ملین ووٹ ڈالے گئے جن میں سے جماعت اسلامی نے 429,065 ووٹ، پیپلز پارٹی نے 361,703 ووٹ اور تحریک انصاف نے 325,875 ووٹ حاصل کیے ، پیپلز پارٹی نے اب تک 93 ، جماعت اسلامی نے 86 اور تحریک انصاف نے 46 نشستیں حاصل کی ہیں۔

مسلم لیگ ن نے 7، جمعیت علمائے اسلام نے 2 اور تحریک لبیک پاکستان نے ایک نشست حاصل کی ہے۔ ٹرن آوٹ 20 فیصد کے قریب رہا۔ بعض حلقوں سے کامیاب امیدواروں کے ووٹ انتہائی کم ہیں۔ 15 جنوری کے انتخابات کے تناظر میں کئی پہلو قابلِ توجہ ہیں۔

سندھ میں بلدیاتی اداروں کی میعاد دو سال قبل مکمل ہوگئی تھی۔ سندھ کی حکومت آخری وقت تک بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار نہ تھی ، کبھی کورونا ، کبھی سیلاب اور کبھی امن و امان کے نام پر انتخابات ملتوی ہوتے رہے۔

بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے جماعت اسلامی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں نے مسلسل جدوجہد کی۔ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے مسئلہ کے حل کے لیے ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی سے معاہدے کیے۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ دو برس کے دوران میئر کو زیادہ اختیارات دینے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی سربراہی میئر کو دینے کے اعلانات کیے۔

صوبائی حکومت نے کراچی میں کئی اضلاع اس طرح قائم کیے کہ پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی تعداد بڑھ جائے ، جب سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد کیے جائیں تو سندھ کی حکومت نے جلد از جلد حلقہ بندیاں کیں۔

مخالف سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے یہ حلقہ بندیاں کیں، یوں ایک حلقہ بہت چھوٹا اور دوسرا بڑا ہوا۔

اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔ ایم کیو ایم نے نئی حلقہ بندیوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی عرضداشتوں پر فوری فیصلے نہیں دیے، یوں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ، جب بانی ایم کیو ایم نے کراچی پریس کلب کے سامنے لندن سے ایک متنازعہ تقریر کی تھی۔

ایم کیو ایم اس کے بعد کئی دھڑوں میں بٹ گئی۔ اس دوران 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے سب سے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ تحریک انصاف نے کراچی قومی اسمبلی کی 14 نشستیں حاصل کر لیں۔ تحریک انصاف نے زیادہ تر اردو بولنے والے لوگوں کے حلقوں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی تھیں۔

کچھ نظر نہ آنے والی قوتوں نے ایم کیو ایم کے تمام گروپوں کو متحدہ کرنا شروع کیا۔ کراچی میں جمشید ٹاؤن کے علاقے میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر ایم کیو ایم نے اپنے سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کی حمایت نہ کی ، یوں ڈاکٹر فاروق ستار انتخابات میں کامیاب نہ ہوئے۔

ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں اختلافات بڑھ گئے۔ اچانک نامعلوم قوتوں نے ایم کیو ایم کے تمام گروہوں کو ایم کیو ایم میں جمع کرنے کا فریضہ اپنایا مگر یہ تمام گروہ بلدیاتی انتخابات سے 48 گھنٹے پہلے متحدہ ہوئے، یوں متحدہ ایم کیو ایم ووٹروں پر اپنا اثر قائم نہ کرسکی۔

ایم کیو ایم کے ایک گروپ کو دو سال قبل کام کی اجازت تو ملی اور دو رہنما وفاقی کابینہ میں بھی شامل ہوئے مگرپارٹی کے دفاتر واپس نہ ملے۔

ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر 90 عزیز آباد ویران رہا۔ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکن بازیاب نہ ہوسکے، یوں ایم کیو ایم کا اردو بولنے والی برادری سے رابطہ کمزور ہوا۔

ڈیموگرافی کے بعض ماہرین کا بیانیہ ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں سندھ میں متوسط طبقہ کا سائز بڑھا اور اندرون سندھ سے ہزاروں افراد روزگار کے لیے کراچی میں آکر آباد ہوئے۔ یوں ان کے ووٹ کراچی کی ووٹر لسٹوں میں شامل ہوئے ، اس سے پیپلز پارٹی کے ووٹروں میں اضافہ ہوا۔

جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے گزشتہ 10 برسوں میں کراچی کے شہری مسائل پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل حافظ نعیم الرحمن نے مسلسل شہری مسائل پر تحرکیں منظم کیں۔

انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈرز، اداکاروں اور گلوکاروں کی ایسوسی ایشن کو اپنی تحریک کا حصہ بنایا اور سوشل میڈیا کو بھرپور طریقہ سے استعمال کیا ، مگر 15 جنوری 2023 کو ہونے والی ووٹنگ کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف وغیرہ کراچی کی آبادی کے اکثریتی حصہ کو انتخابی عمل میں شرکت کرنے کی طرف راغب نہ کرسکی۔

جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ کامیابی ان اضلاع میں حاصل ہوئی جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے اور حافظ نعیم الرحمن نے اردو بولنے والے تمام مسالک کی برادریوں سے ووٹ حاصل کیے جو ایک مذہبی جماعت کے لیے ایک نیا تجربہ ہے مگر جماعت اسلامی ان اضلاع سے ووٹ حاصل نہ کرسکی جہاں سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور سرائیکی برادریاں ہیں۔

پیپلز پارٹی نے ان اضلاع میں کامیابی حاصل کی جہاں سندھی، بلوچی ، پٹھان لوگو ں کی اکثریت ہے۔

2018کے انتخابات میں لیاری سے جماعت اسلامی، تحریک لبیک پاکستان اور تحریک انصاف کے نمایندے لیاری سے کامیاب ہوئے تھے مگر پیپلز پارٹی نے اس دفعہ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیے جن کا ماضی شفاف ہے اور لیاری میں ہی مقیم ہیں، یوں پیپلز پارٹی نے لیاری میں اپنی پوزیشن بحال کردی۔ ابھی 11 نشستوں کے انتخابات باقی ہیں۔

پھر خواتین، مزدوروں، ٹرانس جینڈرز اور اقلیتوں کی نشستوں پر انتخابات منعقد ہوںگے، جن کی بناء پر پیپلز پارٹی کی نشستیں بڑھ جائیں گی مگر بصیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پالیسی بنانے والے اکابرین کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کو میئر کا عہدہ دیا جائے تو کراچی کی آبادی کی اکثریت کا احساس محرومی دور ہوگا۔

جماعت اسلامی کی قیادت کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف سے اتحاد کرتی ہے تو جماعت اسلامی تحریک انصاف کی ایجی ٹیشن کی سیاست کا حصہ بن جائے گی اور حافظ نعیم کا شہری مسائل حل کرنے کا بیانیہ ناکام ہوگا ۔

ان تمام جماعتوں سمیت اراکین کو اس حقیقت کو یاد رکھنا ہوگا وہ کراچی کی آبادی کی اکثریت کے نمایندے نہیں ہیں مگر یہ منتخب اراکین اپنی پالیسیوں سے اکثریت کو اپنا ہمنوا بنا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔