افغان صدارتی انتخاب اور ہمارا چوکس میڈیا

نصرت جاوید  منگل 8 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے انتشار، ابتری اور عدم تحفظ کی جو فضاء نظر آ رہی ہے، اس کے اہم ترین اسباب میں ایک افغانستان کے حالات بھی تو ہیں۔ ہمارے اس ہمسائے کے ساتھ بگاڑ کا اصل آغاز 1975ء میں ہوا جب ذوالفقار علی بھٹو نے سردار دائود کی حکومت کو پشتون قوم پرستی کی سرپرستی سے باز رکھنے کے لیے گل بدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی جیسے ’’اسلام پسندوں‘‘ کو پاکستان میں پناہ دے کر اپنے ہدف تک پہنچنا چاہا۔ پھر 1978ء میں وہاں کمیونسٹ اقتدار پر قابض ہو گئے اور بتدریج دنیا کے نام نہاد جدید اور انسانی حقوق کے چمپیئن بنے ممالک نے امریکا کی سربراہی میں ’’افغان جہاد‘‘ کے ذریعے سرد جنگ کو فیصلہ کن انجام تک لے جانے کی جدوجہد شروع کر دی۔

’’غازی ضیاء الحق شہید‘‘ نے اسی جہاد کی بدولت گیارہ سال ہم پر حکومت کی۔ پھر سوویت یونین کو شکست ہو گئی اور دنیا افغانستان کو بھول بھال گئی۔ 9/11ء نے اس ملک کو دوبارہ دنیا کے نقشے پر نمایاں کر دیا اور اس تبدیلی کا فائدہ بھی پاکستان کے ایک اور فوجی آمر نے پورے 9 سال تک اٹھایا۔ جنرل ضیاء کے 11 اور مشرف کے نو برسوں نے پاکستان میں افراتفری اور بحران کو شدید تر ہی کیا اور بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد اپنے ہی ملک میں دائمی امن کی خاطر بہت سارے طاقتور حلقوں کی مخالفت کے باوجود دوسرے فریق سے مذاکرات کا آغاز کرنا پڑا۔ ان مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود میں ان سے خیر کی خبر سننے کے لیے دُعا گو ہوں۔

محض ایک صحافی ہوتے ہوئے فی الوقت مجھے سب سے زیادہ گلہ اپنے میڈیا سے ہے۔ اتوار کو افغانستان میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور پوری دنیا 58 فیصد رائے دہندگان کی بھرپور شمولیت پر حیران ہو گئی ہے۔ رائے دہندگان کی گرم جوش شرکت سے کہیں زیادہ حیرت اس بات پر بھی ہو رہی ہے کہ انتخابی عمل کے دن دہشت گردی کے ڈرامائی واقعات نہیں ہوئے۔ باقی دنیا کی افغانستان کے صدارتی انتخاب کے بارے میں حیرانی سمجھی جا سکتی ہے۔ مگر پاکستان کے عوام کی اس بارے میں عمومی لاعلمی اور تقریباََ بے حسی میرے لیے کافی پریشان کن بات ہے اور میں اپنی پریشانی کا ذمے دار ہمہ وقت چوکس اور مستعد ہونے کے دعوے دار اپنے میڈیا کو بھی ٹھہراتا ہوں۔

غیر ملکی اور افغان میڈیا کے سرسری جائزے کے بعد تقریباََ ایک ماہ سے اسلام آباد میں بیٹھا میں یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا تھا کہ افغان صدارتی انتخابات کے لیے مہم بڑے جاندار انداز میں چلائی جا رہی ہے۔ وہاں کے بڑے ٹی وی چینلوں نے صدارتی امیدواروں کے درمیان براہ راست مباحث کو اسی انداز میں پیش کیا جو امریکی صدارتی انتخاب کے دنوں میں وہاں کے ٹی وی چینل 1964ء سے اپنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کسی ٹیلی وژن اینکر اور اخبارات کے لیے کالم لکھنے والوں نے مگر اس پورے عمل کو افغانستان جا کر بیان کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ مجھے شک ہے کہ ہمارے صحافی افغانستان کے صدارتی انتخابات سے لاتعلق رہے تو اس کی وجہ ہمارے ہاں پھیلا ہوا یہ عمومی تاثر تھا کہ افغان طالبان جو ’’مغربی جمہوریت‘‘ کو پسند نہیں کرتے ان انتخابات کو خیر و عافیت سے ہونے ہی نہیں دیں گے۔

طالبان ہی کے خوف سے عوام کی کثیر تعداد پولنگ ااسٹیشنوں پر آنے کی جرأت ہی نہیں دکھائے گی اور خاص طور پر پشتون اکثریتی علاقوں میں بیلٹ بکسوں کو جعلی ووٹوں سے بھر کر کوئی مناسب ’’ٹرن آئوٹ‘‘ دکھانا پڑے گا۔ آج کے ’’گلوبل ویلج‘‘ میں حقائق کو چھپانا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ ٹی وی کیمرہ سستا اور ہلکا ہے۔ اسے ہر جگہ با آسانی لے جایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی کیمرہ نہ بھی ہو تو کوئی سستا ترین موبائل فون بھی ایک دو منٹ کی ریکارڈنگ کے ذریعے بہت کچھ بیان کر سکتا ہے۔ کسی مستند ذریعے سے آئی ’’خبر‘‘ کی عدم موجودگی میں کم از کم میں یہ باور کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ افغان عوام نے بڑی تاریخی اور بھاری تعداد میں افغان صدارتی انتخاب میں حصہ لیا۔

’’ہیوی ٹرن آئوٹ‘‘ مجھے یہ سوال اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا افغان طالبان نے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کی محض اپیلیں کیں اور دانستہ طور پر جنگی کارروائیوں کے ذریعے ان انتخابات کی کریڈیبلٹی کو مشکوک بنانے سے باز رہے۔ چونکہ میرے پاس اپنے اس سوال کا کوئی واضح جواب موجود نہیں تو ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاید خالصتاََ جنگی حوالوں سے افغان طالبان میں اب اتنی سکت ہی باقی نہ رہی ہو کہ وہ صدارتی انتخابات کو موثر انداز میں سبوتاژ کر سکتے۔ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیں امریکی اور NATO افواج کے اس دعوے کو اب بڑی سنجیدگی سے لینا ہو گا کہ صدر اوبامہ کے پہلے دورِ حکومت میں کی جانے والی Surge اور اس وقت سے متعارف کردہ ڈرون حملوں کے ذریعے افغان طالبان کی مسلح قوت کو کم از کم Degrade ضرور کر دیا گیا ہے۔ Degrade کر دیے جانے کا یہ تاثر ہمارے دانشوروں کے خواہ ان کا تعلق کسی بھی نظریاتی گروہ سے ہو ان خدشات اور مفروضات کو بے معنی بنا دیتا ہے جو گزشتہ تین برسوں سے تقریباََ حقیقت متصور کیے جا رہے تھے۔

اپنے میڈیا کی سمجھ میں نہ آنے والی لاتعلقی کے ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنی سرکار کے رویے پر بھی بڑی حیرت ہوئی۔ نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں تو بنیادی طور پر جمہوری نظام کی بدولت۔ ان کا 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر برسراقتدار آنا پوری دنیا کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ اسلام کے نام پر بنے پاکستان کے عوام کی اکثریت بلٹ نہیں بیلٹ کے ذریعے اپنی سیاسی ترجیحات کا تعین کرنا پسند کرتی ہے۔ مگر ہم نے اس پیغام کو پھیلانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے دوران ہونے والی گہماگہمی ہماری حکومت دنیا کو یہ بتانے کے لیے بھی تو استعمال کر سکتی تھی کہ راولپنڈی اور اسلام آباد ہرگز ان افراد کی پشت پناہی نہیں کرتے جو بندوق کے زور پر افغانستان پر اپنی پسند کا نظام مسلط کرنا چاہ رہے ہیں۔

ہفتے کو افغان صدارتی انتخاب کے دوران بھاری ٹرن آئوٹ کی خبریں دیکھنے کے بعد میں نے اپنے طور پر یہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ ہمارے دائمی اور سیاسی حکمران اس پورے عمل کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ صرف ایک وفاقی وزیر جن کا نام میں بہت سی وجوہات کی بناء پر نہیں لکھ رہا محض ایک ’’سیاسی ورکر‘‘ ہوتے ہوئے اس بات کے بڑے خواہش مند تھے کہ افغانستان کے صدارتی انتخاب کے دوران نظر آنے والی گہماگہمی کا سرکاری طور پر خیرمقدم کیا جائے۔ یہ وزیر کئی حوالوں سے کافی اہم ہیں مگر ان کا اس ملک کے داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی تشکیل میں براہِ راست کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ وزارت داخلہ اور خارجہ کے کئی بزرجمہر مگر اس بات پر بضد رہے کہ افغان صدارتی انتخاب میں گہماگہمی کی پذیرائی ان لوگوں کو ناراض کر سکتی ہے جن کے ساتھ ہم ان دنوں اپنے ہی ملک میں دائمی امن کے حصول کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ کافی مزاحمت کے بعد بالآخر اتوار کی سہ پہر وزیر اعظم کی طرف سے ایک خیر مقدمی بیان آ ہی گیا۔ کاش یہ ہفتے کی رات ہی آ گیا ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔