افغان طالبان دوست یا دشمن 

مزمل سہروردی  جمعرات 2 فروری 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں دہشت گردی کے واقعے نے پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایک قومی اتفاق رائے پیدا کیا ہے لیکن صرف اتفاق رائے کافی نہیں۔

سوال یہ ہے کہ آگے کیا کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے یہ موقف لیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی پارلیمان میں طے کی جائے گی۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی پارلیمان کو اس ضمن میں بریفنگ دیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کا اجلاس بھی ہوگا۔ جس میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے۔

کور کمانڈر کانفرنس بھی ہو گئی ہے، لہٰذا پاک فوج نے بھی اپنی حکمت عملی پرغور کر لیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ فتح پاکستان ہو گی۔ یہ دہشت گرد نہ کل اس قابل تھے کہ ریاست پاکستان سے لڑ سکیں۔ کل بھی انھیں شکست ہوئی تھی اور آیندہ کل بھی ان کو شکست ہوگی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے اپنی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ دوبارہ شروع کر دی ہے۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو شکست دے دی تھی ۔ آج دوبارہ زندہ ہماری وجہ سے ہوئی ہے۔ ہماری غلط حکمت عملی کی وجہ سے آج ہم دوبارہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ہم دوبارہ جیت جائیں گے، لیکن کیا یہ احتساب ہونا ضروری نہیں کہ ہم دوبارہ کیوں پھنس گئے ہیں۔ کیا غلط حکمت عملی کا احتساب ہونا ضروری نہیں۔

افغان طالبان کی عالمی سطح پر وکالت بھی کوئی اچھی پالیسی ثابت نہیں ہوئی۔ عمران خان کے افغان طالبان کے حق میں عالمی میڈیا کو انٹرویوز نے نہ عالمی سطح پر پاکستان کی کوئی مدد کی اور نہ ہی افغان طالبان اس پر شکر گزار نظر آئے ہیں۔افغانستان میں ٹی ٹی پی سے بات کرنے کے لیے امن جرگوں کے کوئی خاص نتائج بھی سامنے نہیں آئے ہیں۔

افغان طالبان نے ہمیں تو مجبورکیا کہ ہم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن کے لیے بات کریں‘ ان کے پھانسی کے سزا یافتہ مجرمان کو رہا کیا گیا اور جواب میں کیا ملا۔ امن نہیں ملا۔ دہشت گردی دوبارہ شروع ہو گئی۔ ٹی ٹی پی کے مطالبات کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔ ہم ایک پورا کرتے تھے دوسرا سامنے آجاتا تھا۔

آخر ان کی خواہش پر علما دین کا جرگہ بھی بھیجا گیا۔ وہ ان کی بات بھی نہیں مانے۔ اس لیے آج یہ ماننا ہوگا کہ ان سے بات کرنا، ان سے سیز فائر کرنا اور ان کے ساتھیوں کی رہائی سب غلط فیصلے تھے۔ جن قوتوں نے بھی یہ پالیسی بنائی تھی وہ غلط تھی اس کا پاکستان کو نقصان ہوا ہے‘ اس لیے اس کی ذمے داری بھی فکس ہونی چاہیے۔

میں نے ملٹری کورٹس دوبارہ بنانے کی بات کی ہے۔ لیکن اس بار پارلیمان کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ دوبارہ کسی بھی حکومت کو کسی بھی عسکری گروپ کے ساتھ سیز فائر اور امن مذاکرات کے نام پر دہشت گردوں کو چھوڑنے کی ہمت نہ ہو۔ یہ ملک دشمنی جیسا جرم ہے۔

کسی کو بھی دہشت گردوں کو چھوڑنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پاکستان کے مجرم ہیں۔ انھیں کوئی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی چند شخصیات کیسے رعایت دے سکتی ہیں، یہ پاکستانیوں کے قاتل ہیں‘ انھیں کوئی کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ان کی رہائی ایک قومی جرم ہے جس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔

طالبان کے تمام سیاسی و غیر سیاسی وکلاء کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ وہ جو ہمیں بتا رہے تھے کہ انھوں نے بڑی جنگ جیتی ہے۔ جو ان کی فتح کے شادیانے بجا رہے تھے۔ وہ جو ہمیں بتا رہے تھے کہ اشرف غنی کے جانے سے پاکستان محفوظ ہو گیا ہے۔ اب بھارت کے تمام سلیپر سیل افغانستان سے ختم ہو جائیں گے۔

کیا وہ لو گ بتائیں گے کہاں گئے وہ دعوے کہ اب افغان طالبان کسی بھی دہشت گرد کو پناہ نہیں دیں گے۔ وہ ہمارے دشمن ہمارے حوالے کر دیں گے۔ اب وہاں سے بھارت دہشت گردی کا نیٹ ورک نہیں چلا سکے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے وہ باتیں کس بنیاد پر کی تھیں۔ کیا یہ سب غلط ثابت نہیں ہو گیا۔ کوئی اس پر معافی مانگے گا۔

جہاں ٹی ٹی پی سے نبٹنے کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہاں یہ طے کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ افغان طالبان حکومت بھی پاکستان کی دوست حکومت نہیں ہے۔ بے وجہ دوستی کے گیت گانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگروہ دوست نہیں تو یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ دوست نہیں۔ اگر ان کی پالیسیاں پاکستان دوست نہیں تو یہ کہنا چاہیے کہ ان کی پالیسیاں پاکستان دوست نہیں ہیں۔

اگر وہ پاکستان کے دشمنوں کو پناہ دے رہے ہیں تو ان سے مطالبہ کیا جائے کہ ہمارے دشمن ہمارے حوالے کیے جائیں، ورنہ ان پر سختی کی جائے۔ یہی سفارتکاری کاا صول ہے۔وہ رعایتیں بھی لے رہے ہیں۔ا ور ہماری دشمنی بھی کر رہے ہیں یہ کیسے چل سکتا ہے۔ پاکستان کے اندر جو لوگ طالبان کی وکالت کر رہے ہیں‘ ان کابھی محاسبہ ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔