- صدر مملکت، وزیراعظم کا یومِ پاکستان کے موقع پر قوم کے نام پیغام
- یوم پاکستان؛ وفاقی اور چاروں صوبائی دارالحکومت میں توپوں کی سلامی
- چینی موبائل کمپنی کے بھارتی مینیجر کروڑوں کے فراڈ میں گرفتار
- الیکشن کمیشن نے پنجاب انتخابات ملتوی کرکے آئین کی خلاف ورزی کی، عمران خان
- ملک بھر میں آج یوم پاکستان قومی جوش و جذبے کیساتھ منایا جا رہا ہے
- حکومت سندھ کی دانستہ خاموشی سے لیاری یونیورسٹی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی
- آسٹریلیا نے تیسرے ون ڈے میں بھارت کو شکست دے کر سیریز جیت لی
- تھائی لینڈ: بزرگ امریکیوں سے اربوں کا غبن کرنے والے 5 بھارتی گرفتار
- الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کردیے
- بچی کو ہاتھ کیوں لگایا! والدین نے ٹیچر کی ہی پٹائی کردی
- شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی سپرد خاک؛ نماز جنازہ میں صدر، وزیراعظم، آرمی چیف کی شرکت
- خاتون کی درخواست پرایف آئی اے کراچی کے افسران کے خلاف مقدمہ درج
- ریاست مخالف اشتعال انگیز تقریر؛ پی ٹی آئی رہنما ارسلان تاج اور راجہ اظہر کی ضمانت منظور
- بھارت اور بنگلادیش میں رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا
- جولائی تا فروری؛ تجارتی خسارے میں 32 فیصد کمی
- چھٹیاں منانے آئے جوڑے پر پہاڑی شیر کا حملہ
- پی ٹی آئی اور امریکی کنسلٹنٹ فرم کے درمیان معاہدے کا انکشاف
- کیوی ایتھلیٹ پرڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آنے پر 8 سال کی پابندی
- شاہراہ فیصل پر تنصیب کیلئے لیاقت علی خان کا قد آور مجسمہ تیار
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 73 پیسے گھٹ گئی
وزارت تردید کی ضرورت
عمران خان نے اپنی حکومت میں وزارت اطلاعات و نشریات کا وزیر ایک ہیوی ویٹ وکیل کو بنایا تھا جن کا پی ٹی آئی میں شمولیت سے قبل میڈیا سے بھی تعلق تھا جو صحافی نہیں تھے مگر اینکر کی حیثیت سے ٹی وی پر نظر آتے۔ یہ فواد چوہدری پہلے جنرل پرویز مشرف کے بڑے حامی تھے پھر مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے مگر انھیں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا۔
جنرل مشرف کے جانے کے بعد فواد چوہدری پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ وہ وزیر اعظم گیلانی کے ساتھ بڑے فخر سے مسکراتے ہوئے تصاویر بنواتے اور صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ میڈیا پر پہلے جنرل پرویز مشرف اور چوہدریوں اور (ق) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی کی حمایت اور بھرپور وکالت کرتے ، بعد ازاں عمران خان کے حامی بنے اور پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے جہاں انھیں2018 میں ضلع جہلم سے قومی اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ملا۔
عمران خان نے انھیں حکومت میں آ کر وزیر اطلاعات اور حکومت کا ترجمان مقرر کیا اور فواد چوہدری نے حکومت کی اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ ہاتھوں سے بھی ایسی ترجمانی کی کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور وہ میڈیا پر چھا گئے۔پھر عمران خان نے نہ جانے کیوں انھیں وزارت اطلاعات سے ہٹا کر فردوس عاشق اعوان کو مقرر کیا تھا۔
اپنی وزارت میں فواد چوہدری نے میڈیا پر مکمل کنٹرول رکھا اور اپوزیشن حکومت پر الزامات لگاتی اس کا توڑ بھی فواد چوہدری نے کر رکھا تھا۔ میڈیا اپوزیشن کی مرضی کی خبریں شایع نہ کرنے پر مجبور تھا اور عمران حکومت میں وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات خود پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو دیکھتے بلکہ وزیر اعظم آئے دن اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے ضروری ہدایات دیتے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اپوزیشن پر حاوی تھا اور وہ اپوزیشن سے متعلق جو خبریں چلواتا اس کا توڑ ہی اپوزیشن کے پاس اس وقت بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔
اپوزیشن کے پاس اس وقت بھی حکومتی بے بنیاد خبروں کی تردید کے وسائل تھے اور نہ آج ہیں بلکہ پی ٹی آئی حکومت سے باہر ہوتے ہوئے بھی حکومتی میڈیا ٹیم سے زیادہ متحرک اور مکمل فعال ہے اور موجودہ حکومت کی میڈیا ٹیم پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے سے قاصر ہے اور اس میں پی ٹی آئی اور اس کی منظم سوشل میڈیا ٹیم حکومتی دعوؤں کی تردیدیں کرنے میں حکومت سے آگے ہے۔
آج پروپیگنڈے اور حکومت کے خلاف بے بنیاد خبریں پھیلانے کا دور ہے تاکہ عوام حکومت سے متنفر ہوں اور پی ٹی آئی حکومت مخالف خبریں پھیلانے میں کامیاب ہے اور اتحادی وزیر جواب دینے کے لیے سو سو کر جاگتے ہیں اور ان میں موثر تردید کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے جس سے حکومت کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔
حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کا گمراہ کن پروپیگنڈا کامیاب ہے اور حکومت اپنے خلاف خبروں کی تردید بھی نہیں کر پا رہی۔ عمران حکومت نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا اور کہیں اپوزیشن کی دال نہیں گلنے دی اور حکومت کے خلاف اب بھی پی ٹی آئی کے رہنما اور سوشل میڈیا اتنا متحرک و فعال ہے کہ حکومت بے بس ہو چکی ہے اور اپنے خلاف خبروں کی تردید بھی نہیں کر پاتی۔
آج بھی حکومتی دعوؤں پر عوام یقین نہیں کرتے اور پی ٹی آئی کی پھیلائی خبروں پر یقین کرلیتے ہیں جس کا ثبوت ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کی خبریں ہیں جو پی ٹی آئی پھیلانے میں مکمل کامیاب ہے جس پر اب عوام ہی نہیں سینئر صحافی بھی متاثر ہو چکے ہیں۔ وزیر خزانہ اور حکومت عوام کو یہ باور کرانے میں ناکام ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کر رہا ہے مگر عوام ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
عمران حکومت میں اطلاعات کے وزیر مملکت اور دیگر ترجمان تھے جو حکومت اور عمران خان کے بیانات سے عوام کو متاثر کرلیتے تھے مگر حکومت نے 23 وزیر بے محکمہ رکھے ہوئے ہیں اگر انھی میں سے کسی کو وزیر مملکت برائے تردید کی ذمے داری دے دے تو ممکن ہے وہ کچھ کارکردگی دکھا سکے۔
وزیر خزانہ ناکام ہوچکے ہیں اور کسی وزیر میں حکومت کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط خبروں کی بھی تردید کرنے کی صلاحیت نہیں اس لیے حکومت ایک وزارت تردید قائم کرے جس میں ایسے لوگ شامل ہوں جو غیر سیاسی ہوں اور ایمان داری سے حکومت کی کامیابی اور ناکامی عوام کو حقائق کے مطابق بتائیں جو درست ہوں اور عوام ان پر یقین کرسکیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔