جموں و کشمیر پر قبضے کا ’مودی پلان‘

سید عاصم محمود  اتوار 5 فروری 2023
عیّار ومکار بھارتی وزیراعظم سازشوں اور چالوں سے ریاست پر قابض ہونے کا خواہش مند…چشم کشا انکشافات ۔ فوٹو : فائل

عیّار ومکار بھارتی وزیراعظم سازشوں اور چالوں سے ریاست پر قابض ہونے کا خواہش مند…چشم کشا انکشافات ۔ فوٹو : فائل

ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی بڑی بدقسمتی ہے کہ انھیں مخلص، دیانت دار اور قابل لیڈرشپ نہ مل سکی۔

1947ء میں شیخ عبداللہ کشمیری مسلمانوں کا مقبول ترین راہنما تھا۔ اس نے اقتدار و جاہ وحشمت کی ہوس میں مبتلا ہو کر کشمیری مسلمانوں کو تکلیف و پریشانی کی دلدل میں دھکیل دیا۔وہ ’’وزیراعظم ‘‘کشمیر بننے کی خواہش لیے بھارتی حکمران طبقے کے تلوے چاٹنے لگا۔

بھارتی حکمران طبقے نے نہ صرف اس کو وزیراعظم بنایا بلکہ اسے اور کشمیری مسلمانوں کو تسلی دینے کی خاطر بھارتی آئین میں ریاست کو خصوصی درجہ(آرٹیکل 370)دے ڈالا۔شیخ عبداللہ اور اس کا خاندان ریاست میں 2014ء تک حکومت کرتا اور سیاہ وسفید کا مالک رہا۔اس دوران یہ خاندان اقتدار سے جائز وناجائز فوائد پا کر کروڑپتی بن گیا۔

جب کہ عام کشمیری مسلمان کی حالت زیادہ نہ بدل سکی۔عوام غربت، جہالت و بیماری کے چنگل میں پھنسے رہے۔2014ء سے ریاست کے ایک اور امیر سیاسی خاندان، مفتی فیملی نے ریاستی حکومت سنبھال لی۔وہ انتہا پسند ہندو جماعت، بی جے پی کا شریک کار بن گیا۔مفتی خاندان کی رکن، محبوبہ مفتی وزیراعلی بن کر اقتدار کے مزے لوٹنے لگی۔

جنوری 2018ء میں سفاک ہندوؤں نے ایک مسلمان خانہ بدوش لڑکی، آصفہ پہ ظلم کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا۔اس سفاکی کے خلاف مسلمان مظاہرے کرنے لگے تاکہ مجرموں کو کڑی سزا مل سکے۔ہندو مگر مجرم رہا کرانے کی خاطر جلوس نکالنے لگے۔

اس واقعے پر محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے درمیان اختلاف نے جنم لیا۔محبوبہ مفتی مسلمانوں کی مخالفت مول لے کر اپنا سیاسی کئیریر ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس نے جون 2018ء میں استعفی دے دیا۔نومبر میں بی جے پی کے گورنر نے ریاستی اسمبلی تحلیل کی اور وہاں گورنر راج نافذ کر دیا۔

خصوصی درجہ ختم

اگلے سال بھارت میں پارلیمانی الیکشن ہونے تھے۔بی جے پی نے مودی کی زیرقیادت انتخابی منشور میں یہ نکتہ شامل کر لیا کہ اگر پارٹی الیکشن جیت گئی تو وہ آئین میں دیا گیا ریاست جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دے گی۔

الیکشن اپریل تا مئی 2019ء انجام پایا جو خلاف توقع بی جے پی نے جیت لیا۔یہی نہیں، اسے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی جو خصوصی درجہ ختم کرنے کے لیے ضروری تھی۔الیکشن کے صرف تین ماہ بعد 5 اگست کو وزیراعظم مودی کی زیرقیادت بھارتی پارلیمنٹ نے ریاست جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر دیا۔

اس نے لداخ ڈویژن کو ریاست سے الگ کر کے وفاقی ( یونین ٹیریٹی)بنا دیا۔جموں اور وادی کشمیر کے ڈویژن الگ وفاقی علاقہ قرار پائے۔یوں بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کی اکثریتی ریاست، مقبوضہ جموں وکشمیر کا براہ راست کنٹرول سنبھال لیا۔

ہنود ویہود کا گٹھ جوڑ

ماہرین تاریخ کی رو سے مودی سرکار کو ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرنے کا خیال وہ منصوبہ دیکھ کر آیا جس کے ذریعے یہود فلسطین کے علاقے میں اپنی مملکت بنانے میں کامیاب رہے۔آج بھی یہود اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

اس کی مدد سے وہ مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضہ کر رہے ہیں۔یہ دونوں علاقے مستقبل کی آزاد ریاست فلسطین میں شامل ہونے ہیں۔یہودی امرا نے انیسویں صدی کے اواخر سے فلسطین میں زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا۔وہاں پھر دنیا بھر سے یہود لا کر بسائے گئے۔اس طرح رفتہ رفتہ فلسطین میں ہزاروں اور پھر لاکھوں یہود آباد ہو گئے۔

حتی کہ 1947ء میں انھوں نے اسرائیل قائم کر لیا۔اب بھی وہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں بسا رہے ہیں۔جبکہ مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں کے گھروںپہ قبضے کا عمل جاری ہے۔مقصد یہی ہے کہ دونوں علاقوں میں یہود کی آبادی اتنی زیادہ بڑھا دی جائے کہ وہ مستقبل میں کسی فلسطینی مملکت کا حصہ نہ بن سکیں۔

مودی جنتا نے بھی یہود کا منصوبہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا۔یہی کہ پہلے ریاست میں ہندو امرا زمینیں خریدیں اور پھر وہاں بھارت بھر سے ہندو لا کر بسا دئیے جائیں۔اس طرح ریاست میں مسلمانوں کی عددی برتری پہلے کم اور پھر ختم کرنا مقصود ہے۔

اسے انجام دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ خصوصی درجہ تھا۔وجہ یہ کہ اس قانونی نکتے کے باعث غیرکشمیری ریاست میں زمینیں نہیں خرید سکتے تھے۔لہذا مودی سرکار کا پلان اسی وقت کامیاب ہو سکتا تھا جب ریاست کو حاصل خصوصی درجہ ختم ہو جائے۔

دس لاکھ غیر کشمیری

یہ درجہ ختم کرنے سے مودی جنتا کو ایک فوری فائدہ مل گیا۔دراصل پچھلے ستر برس کے دوران بھارت سے روزگار کی تلاش میں تقریباً دس لاکھ غیر کشمیری جموں وکشمیر میں آباد ہو چکے۔

انھیں مگر خصوصی درجے کی وجہ سے ریاستی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ تھا۔نہ ہی وہ کسی قسم کی سرکاری مراعات پا سکتے تھے۔ریاست میں آباد ’’95‘‘فیصد غیر کشمیری ہندو ہیں۔اس حقیقت کا ادراک ہوا تو جموں وکشمیر کو وفاقی علاقہ بناتے ہی ان میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جانے لگے۔

مدعا یہ تھا کہ انھیں جموں وکشمیر کی شہریت مل جائے۔یوں وہ مقامی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت پا لیتے۔بی جے پی کو یقین تھا، ہندو ہونے کے ناتے وہ اسی کو ووٹ دیں گے۔اس طرح پونے دس لاکھ ووٹ پا کر بی جے پی جموں وکشمیر میں بادشاہ گر پارٹی کا روپ دھار سکتی ہے۔

ریاست کے اصل حکمران ہندو

یہ واضح رہے، تقسیم ہند کے وقت جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔1947ء میں مگر جموں کے انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور لاکھوں مسلمان شہید کر دئیے۔یوں مسلمانوں کی نسل کشی کر کے جموں میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔

اس قتل عام میں ہندو راجا کی فوج نے بھی حصہ لیا۔بعد ازاں شیخ عبداللہ کے خاندان کی حکومت ریاست میں قائم ہو گئی مگر عام آدمی بدستور کسمپرسی کی زندگی گذارتا رہا۔اس دوران بھارتی حکمران طبقے نے انتظامیہ میں اپنے ایجنٹ داخل کیے اور ریاست پر ایک لحاظ سے قبضہ کر لیا۔گویا ریاست کے اصل حکمران ہندو بن بیٹھے ، گو ظاہری طور پر حکومت مسلمان کر رہے تھے۔

اس قبضے کے خلاف 1989ء سے ریاستی مسلمانوں نے تحریک آزادی کا اعلان کر دیا۔بھارتی حکمران یہ تحریک دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر سیکورٹی فورس ریاست میں لے آئے۔جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر دی گئیں۔مسلمانوں کے گھروں پہ حملے ہونے لگے۔

ان کی جانیں، مال اور عزتیں محفوظ نہ رہیں۔لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ریاست جموں وکشمیر دنیا کا ایک بڑا قید خانہ بن گئی جہاں کسی کو آزادانہ بولنے کی بھی اجازت نہیں۔جو مسلمان بھارتی حکمران طبقے کے خلاف آواز بلند کرے، اسے شہید کر دیا جاتا ہے۔یا پھر قید میں بدترین تشدد اس کا مقدر بنتا ہے۔

بھارتی حکومت نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے ریاست کو دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔اب وہاں ہر عمل مودی سرکار کی مرضی ومنشا سے ہوتا ہے۔

ریاست میں مسلمانوں کی صرف وہی سیاسی پارٹیاں کام کر رہی ہیں جو بھارتی حکمرانوں کا غیر قانونی وغیر اخلاقی تسلط قبول کر لیں۔ایسے خوفناک آمرانہ نظام میں کسی قسم کے سرکاری اعدادوشمار پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

اب بھی مسلمانوں کی اکثریت

بہرحال 2011ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر ڈویژن کی آبادی 67 لاکھ تھی جس میں 97 فیصد لوگ مسلمان تھے۔جموں ڈویژن کی آبادی 53 لاکھ پائی گئی جس میں 62 فیصد ہندو اور 35 فیصد مسلم تھے۔لداخ ڈویژن کی آبادی 2 لاکھ 33 ہزار تھی۔

اس میں 47 فیصد مسلمان، 39 فیصد ہندو اور باقی بدھی تھے۔ مردم شماری کی رو سے ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی یعنی 68.3 فیصد مسلمان، 28.7 فیصد ہندو اور باقی بدھی وسکھ وغیرہ۔

ماہرین شماریات کے مطابق اب جموں و کشمیر کے وفاقی علاقے کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہو چکی۔وادی کشمیر میں کم از کم 95 لاکھ لوگ بستے ہیں۔

جموں میں 65 لاکھ افرادآباد ہیں۔اب بھی اس وفاقی علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی ساٹھ سے پینسٹھ فیصد کے درمیان۔بلکہ یہ زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔کیونکہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں آباد خوف ودہشت کا شکار مسلمان خصوصاً معاشی وجوہ کی بنا پر مجبوراً اپنی اصل شناخت پوشیدہ رکھ سکتے ہیں۔

طاقت ایک شرانگیز وخوفناک وجود

5اگست 2019ء کو ریاست جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد شاطر مودی سرکار نے ریاست میں انتہائی سخت کرفیو لگا دیا۔انٹرنیٹ سروس معطل کر دی۔ٹیلی فون اور موبائل رابطہ بھی مسدود کر ڈالا۔مسلمانوں کو گھروں سے نکلنے سے روکا گیا۔

مقصد یہی تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج نہ کر سکیں۔گویا ظالم مودی جنتا نے پہلے پہلے طاقت کے بل بوتے پر خصوصی درجہ مٹا کر سوا کروڑ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بے انصافی کی۔پھر طاقت کے ذریعے ہی یقینی بنایا کہ وہ ظلم کے خلاف آواز تک بلند نہ کریں۔اس عالم میں طاقت ایک شرانگیز وخوفناک وجود کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

بھارتی حکومت چاہتی تو جموں اور وادی کشمیر کو الگ الگ وفاقی علاقہ بنا دیتی۔مگر اس طریقے سے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی کامل اکثریت ہو جاتی۔انتظامی طور پر بھی انتظامیہ میں بیشتر عہدے دار مسلمان تعینات کرنا پڑتے۔

یوں مقامی مسلمانوں کے لیے معاشی، سیاسی اور معاشرتی ترقی و خوشحالی کی راہیں کھل جاتیں۔مودی سرکار کشمیری مسلمانوں کی ایسی ترقی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔اس کی خواہش تھی کہ وادی کا کنٹرول اسی کے ہاتھوں میں رہے تاکہ مسلمانوں کا استحصال کیا جا سکے۔اسی لیے جموں وکشمیر کو ایک وفاقی علاقہ بنادیا گیا۔مودی جنتا پھر اپنے شیطانی منصوبے پر عمل کرنے لگی۔

ڈومیسائل سرٹیفکیٹ

اس نے وسیع پیمانے پر غیر ریاستی باشندوں میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ تقسیم کیے تاکہ انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت مل سکے۔نیز ریاست میں زمین، گھر اور جائیداد خرید سکیں۔ان کے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ملے۔

اور وہ سرکاری اداروں میں ملازمتیں بھی حاصل کر لیں۔اب بی جے پی کی حکمت عملی ہے کہ بھارت بھر سے اپنے کارکن جموں وکشمیر لاکر ان میں سرکاری زرعی زمینیں تقسیم کی جائیں۔نیز صنعت کاروں کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں تاکہ وہ نئے کارخانے بنائیں اور نئی کمپنیاں کھولیں۔ان میں ہندو ملازم رکھے جائیں گے۔یہ سبھی ڈومیسائل پا کر وفاقی علاقے کے شہری قرار پائیں گے۔

ریاستی اسمبلی پر قبضہ

بی جے پی کا منصوبہ ہے کہ جموں وکشمیر کی اسمبلی میں ارکان کی کثرت پا کر وفاقی علاقے کا کنٹرول سنبھال لے۔یوں پلان پہ عمل درآمد آسان ہو جائے گا۔

اس ضمن میں ایک تو دس گیارہ لاکھ نئے ہندو ووٹر مودی اینڈ کو کی مدد کریں گے۔دوم اس عیار ٹولے نے یہ چال چلی کہ نئی حد بندی کی آڑ لیتے ہوئے جموں سے اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کر دیا۔ مقصد یہی ہے کہ اسمبلی میں بی جے پی کی اکثریت ہو جائے ۔اور وہ ہندو اقلیت ہونے کے باوجود حکومت بنائے اور مسلم اکثریت پہ ظلم وستم کے نئے پہاڑ توڑنے لگے۔

خصوصی درجہ ختم کرنے سے قبل ریاستی اسمبلی میں کشمیر ڈویژن کے لیے 46 نشستیں مخصوص تھیں۔جموں ڈویژن بہ لحاظ آبادی 37 اور لداخ 4 نشستیں رکھتا تھا۔گویا اسمبلی کی کل 87 سیٹیں تھیں۔مودی جنتا نے کل نشستیں 90 کر دیں۔

مگر اب کشمیر ڈویژن 47 اور جموں 43نشستیں رکھتا ہے۔ یوں ہندو اکثریتی جموں کی سیٹوں میں 6 کا اضافہ ہو گیا۔جبکہ مسلم اکثریتی علاقے کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی۔یہی نہیں ، 9 نشستیں پسماندہ گروہوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں جو سبھی ہندو ہیں۔

اس طرح چانکیہ کے پیروکار، مودی نے شاطرانہ چالیں چل کر جموں وکشمیر اسمبلی کی ہئیت بدل ڈالی اور یقینی بنا لیا کہ وہ دھونس ودھاندلی اختیار کر کے بھی الیکشن میں کم از کم’’ 50 سیٹیں‘‘ پا لے۔اس طرح وہ ہندو اقلیت کو جموں وکشمیر کے اکثریتی مسلمانوں پہ مسلط کرنے میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔

وہ مسلمانوں کی تحقیر وتوہین کر کے نفسیاتی تسکین حاصل کرتا ہے۔ظاہر ہے، یہ حکومت مسلمانان جموں وکشمیر کے ساتھ ہر ممکن زیادتی کرے گی۔جبکہ ہندوؤں کو مواقع دئیے جائیں گے کہ وہ جائز وناجائز طریقے اختیار کر کے پھل پھول سکیں۔اور خوب ترقی کریں۔

بندوق کے زور پر خوفزدہ

مودی جنتا نے عام کشمیری مسلمانوں کو تو بندوق کے زور پر خوفزدہ کر کے خاموش کر رکھا ہے۔ مسلمانان جموں و کشمیرکے غدار و ذاتی مفادات کے اسیر، شیخ عبداللہ کے وارث مقامی راہنما بھی بھارتی حکمرانوں کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں پہ خاموش ہیں۔

وہ زبانی کلامی تو چیختے چلاتے ہیں مگر عملی طور پر مودی سرکار کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔شاطر مودی اپنے نائبین کی مدد سے ایسی چالیں چل رہا ہے کہ مسلم اکثریتی وفاقی حکومت کا انتظام حاصل کر لے۔اور دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے سفلی عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔تب مسلمان علاقے میں زیادہ ہوتے ہوئے بھی اقتدار سے محروم ہو جائیں گے۔اور ہندو ان پہ حکومت کریں گے۔

شیخ عبداللہ اور اس کے حواریوں ہی نے ذاتی مفادات پورے کرنے کے لیے مسلمانان جموں و کشمیر کو پستی وزوال کے اس مقام تک پہنچایا۔اگر ریاست 1947ء میں پاکستان میں شامل ہو جاتی تو آج ریاستی مسلمان آزادی وخودمختاری سے زندگی گذار رہے ہوتے۔

وہ آزادانہ اسلامی تعلیمات پہ عمل کرتے اور انھیں ترقی کرنے و خوشحال بنننے کے بھرپور مواقع حاصل ہوتے۔اب تو وہ ہندو اکثریت کے تابع وغلام بنتے جا رہے ہیں۔

مستقبل کا منظرنامہ

مودی سرکار کی یہی کوشش و سعی ہے کہ جموں و کشمیر میںزیادہ سے زیادہ ہندو بسا کر مسلم اکثریت ختم نہیں تو بے اثر ضرور کر دی جائے۔یوں ریاست کو ہمیشہ کے لیے بھارت میں ضم کرنا آسان ہو جائے گا۔

اس سال کے وسط تک جموں وکشمیر کی اسمبلی کے الیکشن ہو سکتے ہیں۔اگر بی جے پی الیکشن جیت گئی تو وہ پورے بھارت سے لاکھوں ہندو ریاست میں بسانے کی بھرپور کوششیں کرے گی۔ان ہندوؤں کو پُرکشش مراعات دی جائیں گی۔سرکاری زمینیں ان میں بانٹی جائیں گی۔غرض ہر وہ قدم اٹھایا جائے گا جو ہندوؤں کو جموں وکشمیر میں آباد کر سکے۔

مقامی مسلمانوں کے لیے مستقبل کا منظرنامہ بہت خوفناک ہو چکا۔یہی وجہ ہے، اب تحریک آزادی کشمیر کے لیے سرگرم بعض گروہ ہندو شہریوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ ہندؤں کو خصوصاً وادی کشمیر میں آباد ہونے سے روکنے کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔مدعا یہ ہے کہ ہندو خوف ودہشت کا شکار ہو کر وادی میں قیام نہ کریں۔یہ کشمیری گروہ وادی میں ہرگز ہندو اکثریت کو جنم نہیں لینے دیں گے۔

جموں و کشمیر کے عام مسلمان مگر خوف ودہشت کا شکار ہیں۔نیز وہ اپنے مستقبل سے بھی مایوس ہو چکے۔انھیں یقین ہے کہ بی جے پی اقتدار سنبھال کر انھیں سرکاری ملازمتیں نہیں دے گی۔

کاروبار کی راہیں مسدود ہو جائیں گی کیونکہ بی جے پی ہندو کاروباریوں کی حمایت کرے گی۔امیر کبیر ہندو زمینیں، گھر اور جائیدادیں خرید کر رفتہ رفتہ وادی کے مالک بن بیٹھیں گے۔

اس وقت جموں وکشمیر کے سبھی مسلمان خوف وہراس کے عالم میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔کوئی مسلم راہنما، صحافی، سوشل ورکر، تاجر،طالب علم وغیرہ بھارتی آمریت و ظلم کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے مختلف طریقوں سے ستایا جاتا ہے۔

مسلمانوں کو شہید یا پھر گرفتار کر کے تشدد کرنا بھارتی سیکورٹی فورسز کا معمول بن چکا۔لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود دلیر مسلم نوجوانوں نے اپنے لہو سے آزادی کا چراغ روشن رکھا ہوا ہے۔وہ وقتاً فوقتاً فوجی چوکیوں پہ حملے کر کے دشمن کو جہنم رسید کرتے ہیں۔

عالمی قوتیں تماشائی

جموں و کشمیر میں بھارتی حکمران طبقہ علی الاعلان مسلمانوں پہ ظلم وستم ڈھا رہا ہے مگر عالمی قوتیں تماشائی بنی ہوئی ہیں۔وہ بھارت سے تعلقات خراب کر کے اپنے معاشی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتیں۔

بس کبھی کبھی کوئی سرکاری رپورٹ جاری کر کے بھارتی حکومت پر تنقید کر دیتی ہیں اور پھر معاملہ ٹھپ!آج تک بھارتی حکمران کا ظلم روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔اسی لیے بھارتی حکمران کھلم کھلا مسلمانوں پہ ظلم ڈھا رہے ہیں اور کوئی عالمی طاقت انھیں روکنے کو تیار نہیں۔

جموں وکشمیر کے حالات اہل پاکستان کے لیے بھی تشویش ناک اور پریشان کن ہیں۔ہمارے اکثر دریا جموں وکشمیر میں جنم لیتے یا وہاں سے گذر کر آتے ہیں۔

اگر اس علاقے میں مسلم وپاکستان دشمن بی جے پی کی حکومت آ گئی تو وہ دریاؤں کا پانی روکنے کے لیے کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتی ہے۔مثلاً دریائے چناب کا پانی روک دینا۔اس اقدام سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پانی سے محروم ہو جائے گی۔پاکستان پہلے ہی غذائی بحران کا شکار ہے۔دریائی پانیوں کی بندش تو وطن میں قحط پیدا کر کے صورت حال مذید بگاڑ دے گی۔تب پاکستانی معاشرے میں انتشار وافراتفری وسیع پیمانے پر جنم لے گی۔

یاد رہے، نریندر مودی ماضی میں دہمکی دے چکا کہ وہ پاکستان جانے والے دریاؤں کا رخ تبدیل کر کے پانی بھارتی سرزمین پہ بہا دے گا۔اربوں ڈالر کا زرمبادلہ جمع ہونے سے طاقتور ہوتا بھارتی حکمران طبقہ مسلم وپاکستان دشمنی اور غرور میں کوئی بھی شیطانی اقدام کر سکتا ہے۔

 لاکھوں فوجی علاقے میں

بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام وفاقی علاقہ بن جانے پر خوش ہیں۔انھیں امید ہے کہ اب وہ ’’دہشت گردوں ‘‘کا نشانہ نہیں بنیں گے۔ان کو ترقی و خوشحالی کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔بھارت اور بیرون ممالک سے سیکڑوں سیاح جموں وکشمیر آ رہے ہیں۔

یہ تمام باتیں مگر پروپیگنڈا ہے۔مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جموں وکشمیر میں امن وامان جنم لے چکا جبکہ سچائی بالکل مختلف ہے…۔بھارتی حکومت نے بندوق کے زور سے مسلمانان جموں وکشمیر کو خاموش کرا رکھا ہے۔

اگر آج علاقے سے بھارتی سیکورٹی فورسسز رخصت ہو جائیں تو جوالا مکھی پھٹ پڑے۔مسلمانوں کا احتجاج بھارتی مملکت کے درودیوار ہلا ڈالے گا۔اسی لیے مودی لاکھوں فوجی علاقے سے نکالنے کو تیار نہیں۔

سچ یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ چاہے کتنے ہی حیلے حربے آزما لے، وہ کبھی جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو زبردستی اپنا مطیع وفرماں بردار نہیں بنا سکتا۔علاقے میں حریت پسندی کی شمع روشن رہے گی جسے تمام تر طاقت کے باوجود بھارتی حکومت کبھی گُل نہیں کر سکتی۔بقول حافظ مظہر الدین مظہر

بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے

نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے

بھلاؤں کیسے مناظر تری بہاروں کے

ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑاؤں گا اک دن

مرے وطن! تری جنت میں آؤں گا اک دن

جہادِ حق کے لیے کر رہا ہوں تیاری

دکھاؤں گا صفِ دشمن کو شانِ قہاری

بھڑ سکیں مرے سامنے کہاں ناری

فضائے ہند میں پرچم اْڑاؤں گا اک دن

مرے وطن تری جنت میں آؤں گا اک دن

بھارت کا خودغرض ایلیٹ طبقہ

ہمارے معاصر، بھارت کا حکمران طبقہ، جس میں سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر، جج، صنعت کار ، تاجر وغیرہ شامل ہیں، یہ راگ الاپتا رہتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کر رہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی بنائی بیشتر پالیسیاں اسی کو ترقی دیتیں اور خوشحال بناتی ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2014ء سے یہ ایلیٹ طبقہ مودی سرکار کی پالیسیوں کے باعث امیر سے امیر تر ہو رہا ہے جبکہ کم ازکم ستر کروڑ بھارتی باشندے زندگی کی عام ضروریات بھی آسانی سے حاصل نہیں کر پاتے۔ان کی ساری زندگی بہت تکلیف و پریشانی کے عالم میں گذرتی ہے۔

درج بالا خوفناک سچائی ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ سے بھی نمایاں ہوئی۔یہ رپورٹ مشہور برطانوی سماجی تنظیم، آکسفم نے جاری کی ہے۔اس نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ 2012ء سے 2021ء تک بھارت میں جتنی بھی دولت پیدا ہوئی، اس کا ’’چالیس فیصد‘‘حصہ صرف ’’ایک فیصد‘‘بھارتی ایلیٹ طبقے کی تجوریوں میں گیا۔جبکہ بھارت کی غریب ترین ’’پچاس فیصد‘‘ آبادی اس دولت کا صرف ’’تین فیصد‘‘حصہ ہی حاصل کر سکی۔گویا ہمارے پڑوس میں ایسا نظام حکومت تشکیل پا چکا جو امیر کو امیرتر بناتا ہے جبکہ غریب مذید غریب ہو جاتے ہیں۔یہ نظام حکومت سراسر غریب دشمن، ظالمانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔

آکسفم کی رپورٹ نے یہ تلخ سچائی بھی افشا کی کہ بھارتی حکومت ٹیکسوں کی زیادہ تر رقم عوام کی جیبوں سے نکالتی ہے۔وجہ یہی کہ بھارت میں زیادہ تر ٹیکس ان ڈائرکٹ ہیں جو عوام پہ بوجھ ڈالتے ہیں۔مثلاً جی ٹی ایس (سیلز ٹیکس)کو لیجیے۔رپورٹ کی رو سے جی ٹی ایس کی ’’64 فیصد‘‘رقم بھارتی آبادی کا نچلا ’’50 فیصد‘‘طبقہ ادا کرتا ہے۔جبکہ صرف ’’4 فیصد‘‘رقم امیر ترین دس فیصد بھارتیوں سے حاصل ہوتی ہے۔گویا بھارت میں ٹیکس نظام بھی امیر کا سرپرست جبکہ غریبوں کا دشمن ہے۔

بھارت کی مودی سرکار امرا کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہے۔انھیں ہمہ اقسام کی مراعات و سہولیات بھی دستیاب ہیں۔مقصد یہ ہے کہ کاروباری اور کارخانے دار اپنی مصنوعات کی قیمتیں کم رکھیں اور مہنگائی جنم نہ لے۔مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔بھارت کے صنعت کار و تاجر آپس میں ملی بھگت کر کے مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں۔یوں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جاتے ہیں۔

آکسفم کی رو سے بھارت میں غریب اور امیر کے درمیان ’’فحش تقاوت‘‘جنم لے چکا۔ایک طرف امیر ہیں جنھیں ہر سہولت وآسائش میسر ہے۔وہ زندگی ’انجوائے‘ کر رہے ہیں۔دسری سمت کروڑوں غریب بھارتی جو بڑی مشکل سے جسم وروح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔آکسفم اور دیگر عالمی سماجی تنظیمیں مودی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ امیر ترین بھارتیوں پر 2 سے 5 فیصد تک سپر ٹیکس لگایا جائے۔

اس ٹیکس سے جو اربوں روپے ملیں ، وہ غریبوں کی مشکلات دور کرنے میں کام آئیں۔اس ٹیکس سے حاصل شدہ رقم غریبوں کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونی چاہیے۔لیکن امرا کے مفادات کی رکھوالی کرنے والی مودی سرکار کیا اتنا حوصلہ رکھتی ہے کہ ان پہ سپر ٹیکس لگا سکے؟مودی نے امرا کے مفادات کو پس پشت رکھا تو وہ جلد مختلف چالیں چل اور سازشیں کر کے اس کا بوریا بستر گول کر دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔